بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گلاس، بوتل، کٹورے، مشکیزے سے پانی پینے کے آداب


سوال

پانی پینے کا سنت طریقہ کیا ہے،  یعنی گلاس یا بوتل یا اور کوئی برتن میں منہ لگانا ضروری ہے یا بغیر منہ لگائے بھی پی سکتے   ہیں؟

جواب

کسی بھی برتن میں پانی پینے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ بیٹھ کر تین سانس میں پانی پیا جائے، پھر پانی  پینے کے آداب میں سے یہ ہے کہ جو برتن منہ لگاکر  اجتماعی طور پر پانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، یعنی گلاس، کٹورا وغیرہ، اس برتن میں منہ لگاکر پانی پیا جائے، تاہم جو برتن منہ لگاکر پانی پینے کے  لیے استعمال نہیں ہوتے ، جیسے کہ مشکیزہ یا  بوتل وغیرہ، ان سے منہ لگاکر پانی پینے سے  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، جس کی مختلف وجوہات فقہاء و محدثین نے بیان فرمائی ہیں، ان میں سے ایک سبب وہ ہے جو  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا ہے : "منہ  لگانے  سے مشکیزہ وغیرہ کا منہ بودار ہوجائے گا" اور نتیجتًا دوسروں کے لیے اسی بوتل سے پانی پینا کراہیت کا باعث ہوتا ہے، اسی وجہ سے فقہاء و محدثین نے اجتماعی برتن سے منہ لگاکر پانی پینے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

نیز  جہاں ممانعت کے اسباب نہ ہوں تو کراہت بھی باقی نہیں رہتی،   یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور تابعین میں سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین کراہت کے اسباب نہ ہونے کی وجہ سے مشکیزے سے منہ لگا کر پانی پی لیا کرتے تھے ،  نیز خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت کبشہ رضی اللہ عنہا کے مشکیزے سے منہ لگاکر پانی نوش فرمایا ہے ، لہذا  اگر اجتماعی بوتل ہو تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے منہ لگا کر پانی پینا مکروہ ہوگا، بصورتِ دیگر کراہت نہیں ہوگی۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبن الجلالة، وعن أكل المجثمة وعن الشرب من في السقاء»"

(حدیث اسماعیل بن جعفر، رقم الحدیث:2247، ج:2، ص:40، ط:دارالکتب العلمیۃ)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"حدثني ( عبيد الله بن عبد الله ) أنه سمع ( أبا سعيد الخدري ) يقول سمعت رسول الله ينهى عن اختناث الأسقية قال عبد الله قال معمر أو غيره هو الشرب من أفواهها"

هذا باب في بيان ما ورد من النهي عن الشرب من فم السقاء ويجوز تشديد الميم ويروى من في السقاء قيل لم يكتف البخاري بالترجمة التي قبلها لئلا يظن أن النهي خاص بصورة الاختناث وأشار بأن النهي يعم ما يمكن اختناثه وما لا يمكن كالفخار مثلا قلت روى أحاديث تدل على جواز الشرب من فم السقاء منها ما رواه الترمذي من حديث عبد الرحمن بن أبي عمرة عن جدته كبشة قالت دخل على رسول الله فشرب من في قربة معلقة وقال حديث حسن صحيح ومنها حديث أنس بن مالك رواه الترمذي في الشمائل وقد ذكرناه قبل هذا الباب ومنها حديث عبد الله بن أنيس عن أبيه قال رأيت النبي قام إلى قربة معلقة فخنقها ثم شرب من فمها رواه الترمذي وأبو داود وقد صح عن جماعة من الصحابة والتابعين فعل ذلك فروى ابن أبي شيبة في ( المصنف ) عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه كان لا يرى بأسا بالشرب من في الإداوة وعن سعيد بن جبير قال رأيت ابن عمر رضي الله عنهما يشرب من في الإداوة وعن نافع أن ابن عمر كان يشرب من في السقاء وعن عباد بن منصور قال رأيت سالم بن عبد الله بن عمر يشرب من في الإداوة.

فإن قلت كيف يجمع بين هذه الأحاديث التي تدل على الجواز وبين حديثي الباب اللذين يدلان على المنع قلت قال شيخنا رحمه الله لو فرق بين ما يكون لعذر كأن تكون القربة معلقة ولم يجد المحتاج إلى الشرب إناء متيسرا ولم يتمكن من التناول بكفه فلا كراهة حينئذ وعلى هذا تحمل هذه الأحاديث المذكورة وبين ما يكون لغير عذر فيحمل عليه أحاديث النهي قيل لم يرد حديث من الأحاديث التي تدل على الجواز إلا بفعله وأحاديث النهي كلها من قوله فهي أرجح والله أعلم"

(باب الشرب من فم السقاء، ج:21، ص:199، ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں