بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوڑھے آدمی کا اپنی بہو کا بوسہ لینا


سوال

ایک نہایت بوڑھے شخص نے جس کی عمر تقریبا 70سال ہے اپنے بیٹے کی بیوی کا(جب کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں چائے وغیرہ پکانے میں مشغول تھی، صحن دو طرف سے کھلا ہو اہے، کوئی دیوار وغیرہ نہیں ہے) پیچھے سے جاکر دھوکہ سے پیشانی کا بوسہ لے لیا، اس دوران دونوں ہاتھ تھوڑی اور چہرے سے بھی مس ہوئے، گردن سے نیچے ہاتھ نہیں لگایا ،عورت نے کہا بھی کہ ابا یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ تو سسر نے کہا کہ پیار کر رہا ہوں ،عورت کا شوہر گھر پر نہیں تھا اس نے شوہر کو فون کیا کہ معاملہ اس طرح ہو گیا ہے، شوہر گھر پہنچا تو دیکھتا کیا ہےکہ عورت نے رو رو کر برا حال کر رکھا ہے، آنکھیں بالکل سرخ ہیں ،اور بیوی نے پورا واقعہ سنایا، اس واقعہ میں عورت کی ذراسی بھی  غلطی نہیں ہے ،اور اس کو یہ وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ بوڑھا سسر اس کے ساتھ یہ حرکت کرےگا،عورت صوم و صلوۃ کی پابند ہے، مکمل دعوی کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ عورت نہایت پاک دامن ہے اجنبی مرد سے تو اس کو بہت نفرت ہے، شوہر سے بہت زیادہ محبت کرنے والی فرمانبردار، وفادار، ایماندار ہے، صاحبِ اولاد ہے، پورا علمی گھرانہ ہے، پورے گاؤں میں بلکہ اطراف کے گاؤں میں دینی و علمی گھرانہ سمجھا جاتا ہے، مرد عورت دینی مسائل میں رجوع کرتے ہیں، سسر بھی تہجد گزار ہے، صاحبِ علم ہے، مگر شیطان سب کے ساتھ ہے ، عورت کو اگر گھر سے نکالا جائے تو لوگوں میں  اور رشتہ داروں میں بدنامی ہو گی کہ  علمی و دینی گھرانہ میں  یہ کیا ہو گیا،  یہ خاندان تو لوگوں کو دین کی طرف بلاتا ہے اسی گھر سے  یہ کیا ہوا،برائے مہربانی اگر کسی قسم کی گنجائش نکل آئے، عام فتوی تو نہیں خاص فتوی میں جواز کی کوئی شکل ایسی نکل آئے کہ حرام سے بچ جائیں، جب کہ میں حنفی مسلک کو بالکل حق سمجھتا ہوں اور ان کا مسلک نہایت ہی احتیاط پر مبنی ہے، مگر میں فی الوقت دیگر احادیث مختلف صحابہ کے اقوال اور تابعین و تبع تابعین کے اقوال کی طرف نظر کرتے ہوئے بچوں کے ساتھ وقت گزار رہا ہوں، کیوں کہ اکثر حضرات کے نزدیک دواعی زنا سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ کچھ حضرات کے یہاں تو زنا سے بھی حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی اور ان کے پاس بھی باقاعدہ دلائل موجود ہیں اور حدیث پاک میں ہے "أصحابي کالنجوم فبأیهم اقتدیتم اھتدیتم"اور بعض محققین علماء فرماتے ہیں کہ اگر نکاح سے قبل ایسا معاملہ ہوا ہے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی، اگر نکاح کے بعد ہوا ہے تو نہیں ہوگی، کیوں کہ زوجین کا نکاح باقاعدہ حلال طریقے سے گواہوں کی موجودگی میں  دونوں کی رضا مندی سے ہوا ہے، وہ نکاح کیوں ٹوٹ گیا۔ میں نے تسلی اور دل کے اطمینان كے ليے ایک مضمون سابنارکھا ہے ، جس میں مختلف احادیث صحابہ ،تابعین و تبع تابعین کے اقوال ہیں۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن ابن عباس إن زنی بھا (بأم امرأته) لا یحرم علیه ( وصله البیھقي و قال إسنادہ صحیح) و جوزہ سعید بن مسیب وعروۃ والزھري"

تینوں حضرات نے کہا ہے کہ بیوی حرام نہیں ہوگی ، بیوی کو ساتھ رکھنا جائز ہے ۔

"وقال الزهري: قال علي : لایحرم، سئل علي بن ابى طالب عن رجل وقع علی أم امرأته، قال : لا یحرم عليه لأن الحرام لا یحرم الحلال"

ایک کتاب میں ہے وطی حرام و طی حلال کو حرام نہیں کر سکتی ۔

"وعن عائشة ، موقوفا و مرفوعاً لا يحرم الحرام الحلال" (سنن ابن ماجه، کتاب النکاح)

"عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلی اللہ علیه وسلم قال : لا یحرم الحرام الحلال و أخرجه البیھقي عن ابن شھاب عن عروہ عن عائشة أن النبي صلی اللہ علیه وسلم سئل عن رجل يتبع المرأة حراما ثم ینکح ابنتھا أو یتبع الابنة ثم ینکح أمھا، قال لا یحرم الحرام الحلال وعن عروة عن عائشة قالت : قال : رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم : لا یفسد الله حلالاً بحرام و أما في الموطأ الإمام مالك، فأما الزنا فإنه لایحرم شیئا من ذلك لأن الله تعالی قال : امھات نسائكم، فإنما حرم ما كان تزویجا ولم یذکر تحريم الزنا فكل تزویج كان على وجه الحلال یصیب صاحبه امرأته فهو بمنزلة تزویج الحلال وھذا مذهب الإمام البخاري والشافعي ومالك بالقول المعتمد وعائشة وعلي بن أبي طالب وعروۃ و ابن المسیب والزھري و یحيی بن یعمر و أبي ثور و ابن المنذر"

ان حضرات کے نزدیک زنا سے بھی حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، چھونے کی تو دوری بات۔

"وعند أحمد بن حنبل : تثبت المصاهرۃ بالزنا کما قال أبوهریرۃ : لا یحرم حتیٰ یلزق بالأرض یعنی یجامع" (رواہ البخاري)

حضرت ابوھریرہ کے نزدیک زنا سے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، دواعی زنا سے نہیں ۔

اللہ تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے عملی اختلاف میں ہمارا یہ بڑا فائدہ رکھا ہے کہ کوئی شخص ان میں سے کسی کے مطابق بھی عمل کرلے تو اس کے ليے گنجائش ہے ۔

عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ مجھے یہ تمنا نہیں ہوتی کہ صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا کہ اگر کہیں مسائل دینیہ میں ایک ہی قول ہو تا تو بعض صورتوں میں لوگوں كے ليے وہ عملی تنگی کا باعث ہو جاتا، لیکن اب ان کے اختلاف سے دین میں عمل کی مختلف راہیں نکل آئیں، چوں کہ وہ ہمارے مقتداء ہیں، اس ليے اب اگر کوئی ان میں سے کسی کا قول اختیار کرلے تو وہ بھی دین کی ایک سنت پر عمل سمجھا جائے گا۔ صحابہ کے اختلاف سے دین میں عملی وسعت ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جس مسئلے میں صحابہ کے مختلف اقوال ہوں تو جس کا قول قرآن و سنت کے قریب نظر آئے اسی کو اختیار کر لینا چاہيے، کسی ایک قول پر جزم نہیں کرنا چاہیے ،غرض میں دل کے سکون و اطمینان كے ليے اس پورے مضمون کو ذهن میں رکھ کر وقت گزار رہا ہوں اور رات دن ۲۴ گھنٹے میرے دل پر غم و فکر سوار رہتا ہے اور بہت ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈر بھی لگ رہا ہے اور نہایت گریہ وزاری کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعاء بھی کرتا ہوں کہ اللہ پاک تنگی میں کوئی راستہ نکال دے ۔

نوٹ: عورت دل کی مریض ہے ،اگر اس کو معلوم ہو جائے تو جان کا بھی خطرہ ہے ،یہ پورے حالات ہیں۔  مجھے حضرات مفتیان کرام سے قوی امید ہے کہ قرآن وسنت میں پوری طرح غور و خوض کرکے نہایت تسلی بخش اور پوری مجبوری کی طرف توجہ فرما کر جواب سے جلد از جلد نوازیں گے۔

حدیث پاک ہے :"الدین یسر"دین آسان ہے۔

نوٹ:  ایک ایک دن میرے ليے پہاڑ جیسا معلوم ہو رہا ہے، اس ليے نہایت مؤدبانہ گزارش ہے کہ کوئی حل نکال دیں تاکہ زندگی آسانی سے گزر سکے، میں حد سے زیادہ پریشان ہوں ، اللہ پاک پریشانی دور فرمادے۔

جواب

واضح رہے کہ مس  یعنی چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط  میں سے ہر ایک کا پایا جانا ضروری ہے ،کسی ایک کے مفقود(نہ ) ہونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہو گی :

مس  بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو،وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو،مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے،اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے، شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی،شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی،عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو، اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے کہ اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے ،اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں، بلکہ شوہر کو ظن غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے،جس کو چھوا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعتًا  مذکورہ شخص نے اپنی بہو کا شہوت کے ساتھ  بوسہ  لیا تھا اور اس کا یقین بھی  ہےتو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہو گئی ہے،اور یہ بات یاد رہے کہ سسر کا بڑھاپا   حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے مانع نہیں ہے،اسي طرح  مذکورہ شرائط جو ذکر کی ہیں ان ميں سے  ہر ايك  شرط  پائی جاتی ہے تو   اس صورت میں حرمتِ  مصا ہرت ثابت ہو  جائے گی،  اور بہو اپنے شوہر  یعنی بیٹے کے لیے حرام ہو جائے گی،  اگر ان میں سے کوئی ایک بھی شرط نہیں  پائی گئی  توپھر حرمتِ  مصاہرت ثابت نہیں ہو گی ۔

الد رالمختار مع  حاشیہ ابن عابدین میں ہے :

"والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي۔۔۔وقيل حدها أن يشتهي بقلبه إن لم يكن مشتهيا أو يزداد إن كان مشتهيا، ولا يشترط تحرك الآلة وصححه في المحيط والتحفة وفي غاية البيان وعليه الاعتماد والمذهب الأول بحر قال في الفتح: وفرع عليه ما لو انتشر وطلب امرأة فأولج بين فخذي بنتها خطأ لا تحرم أمها ما لم يزدد الانتشار (قوله: وفي امرأة ونحو شيخ إلخ) قال في الفتح: ثم هذا الحد في حق الشاب أما الشيخ والعنين فحدهما تحرك قلبه أو زيادته إن كان متحركا لا مجرد ميلان النفس، فإنه يوجد فيمن لا شهوة له أصلا كالشيخ الفاني، ثم قال ولم يحدوا الحد المحرم منها أي من المرأة وأقله تحرك القلب على وجه يشوش الخاطر قال ط: ولم أر حكم الخنثى المشكل في الشهوة، ومقتضى معاملته بالأضر أن يجري عليه حكم المرأة".

(کتاب النکاح،33/3،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا جامع ميتة لا تثبت به الحرمة، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،275/1،رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"فلو جامع صغيرة لا تشتهى لا تثبت الحرمة، كذا في البحر الرائق. ولو كبرت المرأة حتى خرجت عن حد المشتهاة يوجب الحرمة؛ لأنها دخلت تحت الحرمة فلم تخرج بالكبر ولا كذلك الصغيرة، كذا في التبيين."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،275/1،رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"ثم لا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا، كذا في فتح القدير. أو نائما هكذا في معراج الدراية."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،274/1،رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"كذا في الخلاصة. ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة. وكذا لو مس أسفل الخف إلا إذا كان منعلا لا يجد لين القدم، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب النکاح ،باب فی بیان المحرمات،275/1،رشیدیہ)

الاشباہ و النظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة الثالثة: ‌اليقين ‌لا ‌يزول ‌بالشك ودليلها ما رواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا {إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا، أو يجد ريحا}."

(ص:48،ط:دار الکتب العلمیہ)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144412100283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں