بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوڑھی عورت کا محرم کے بغیر عمرے کے لیے جانے کا حکم


سوال

1۔میری ساس جن کی عمر تقریباً 70 برس ہوگی وہ کسی گروپ کے ساتھ محرم کے بغیر عمرے پر گئیں تھیں، جب کہ گھر میں محرم بھی موجود ہے، کیا محرم کے بغیر عمرہ ادا ہوجاتا ہے؟ کن صورتوں میں محرم کے بغیر عمرہ ادا کرسکتے ہیں؟

2۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سعودی گورنمنٹ نے 18 سے 75 سال  تک اکیلی عورت کو عمرہ ادا کرنے کی اجازت دی ہے، سوال یہ ہے کہ ہمیں سعودی حکومت کی پیروی کرنی چاہیے  یا شریعت مطہرہ کی؟ راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

1۔ اگر عورت کے اپنے شہر سے  مکہ مکرمہ تک مسافتِ سفر (48 میل یا 77.24 کلو میٹر ) ہوتو عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرکے عمرہ کے لیے جانا جائز نہیں ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی ہو، عمر کے کم یا زیادہ ہونے سے حکم میں فرق نہیں آتا، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو محرم کے بغیر سفر کے لیے گھر سے نکلنے سے منع فرمایا ہے، چناں چہ حدیث پاک میں ارشاد ہے:

'' عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لا يحل لامرأة، تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم.'' 

(صحيح مسلم، كتاب الحج،باب سفر المرأة مع محرم إلى حج وغيره،2/ 975، ط: دار احياء التراث العربي)

ترجمہ:"جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتی ہو  اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ محرم کے بغیر تین رات کا سفر کرے ۔"

" عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك»".

(صحيح البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب من اكتتب في جيش فخرجت امرأته حاجة...، 4/ 59، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ:"حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  انہوں نے آپ ﷺ  کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا :  کوئی مردکسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے اور نہ کوئی عورت  بغیر محرم کے سفر کرے۔ تو حاضرین میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول!  میں نے فلاں جہاد کے سفر میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوایا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔"

اس لیے کہ شریعتِ مطہرہ کی رُو کسی بھی عورت کے لیے محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی عورت محرم کے بغیر مسافتِ سفر طے کر کے عمرہ ادا کرلے تو وہ سخت گناہ گار ہوگی، خواہ اکیلی جائے یا  کسی گروپ کے ساتھ جائے، البتہ اُس کا عمرہ ادا ہوجائے گا۔لہٰذا آپ کی ساس کا محرم کے بغیر عمرے کا سفر کرنا جائز نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوئی ہیں اور ان پر توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، البتہ اُن کا عمرہ ادا ہوگیا ہے۔

2۔ ایک مسلمان کو ہر حال میں صرف شریعتِ مطہرہ ہی کی پیروی کرنی چاہیے، اس لیے اگر سعودی حکومت نے عورتوں کو محرم کے بغیر عمرے کا سفر کرنے کی اجازت دے بھی دی ہو، پھر بھی مسلمان  اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی پیروی کرنے کے پابند ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لامرأة حرة ولو عجوزا في سفر.

(قوله حرة) مستدرك لأن الكلام فيمن يجب عليه الحج وقد مر اشتراط الحرية فيه، لكن أشار به إلى أن ما استفيد من المقام من عدم جواز السفر للمرأة إلا بزوج أو محرم خاص بالحرة فيجوز للأمة والمكاتبة والمدبرة وأم الولد السفر بدونه كما في السراج، لكن في شرح اللباب والفتوى: على أنه يكره في زماننا (قوله ولو عجوزا) أي لإطلاق النصوص بحر. قال الشاعر:

لكل ساقطة في الحي لاقطة ... وكل كاسدة يوما لها سوق

(قوله في سفر) هو ثلاثة أيام ولياليها فيباح لها الخروج إلى ما دونه لحاجة بغير محرم بحر، وروي عن أبي حنيفة وأبي يوسف كراهة خروجها وحدها مسيرة يوم واحد، وينبغي أن يكون الفتوى عليه لفساد الزمان شرح اللباب ويؤيده حديث الصحيحين «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر مسيرة يوم وليلة إلا مع ذي محرم عليها» وفي لفظ لمسلم «مسيرة ليلة» وفي لفظ «يوم» " لكن قال في الفتح: ثم إذا كان المذهب الأول فليس للزوج منعها إذا كان بينها وبين مكة أقل من ثلاثة أيام."

(كتاب الحج،2/ 464،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں