بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بوڑھے والدین اور ساس سسر سے بدسلوکی کرنا


سوال

کیا ساس سسر بوڑھے یا بیمار ہوں تو ان کا کام صرف پوتا/پوتی کو سنبھالنا رہ جاتا ہے؟ اور اگر بچہ ضد کرےیا کوئی غلط کام کرے اور  دادا ،دادی اسے ڈانٹیں یا منع کریں اور وہ روئے تو بہو یا بیٹے کو حق حاصل ہے کہ ان  سے بدتمیزی یا بدکلامی کریں یا طنز و طعنہ دیں؟ یا کسی عام وقت میں بھی اپنی من مانی تو کریں ہی لیکن وجہ بلاوجہ آپ سے بدتمیزی کریں؟

جواب

 اگر بیٹااور بہو  آپ  کے ساتھ بدسلوکی اور بداخلاقی کرتے ہیں تو ان  کا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک اورقابل ِ مذمت ہے، ایسا طرز عمل آخرت کے لئے  سراسر نقصان کا باعث ہے، قرآن و حدیث میں بے شمار مرتبہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے  اور والدین کے ساتھ بدسلوکی پر شدید وعیدیں ارشاد فرمائی گئی ہیں،  چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا  [الإسراء: 23، 24]

ترجمہ: ’’ تیرے رب نے حکم کردیا کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کر اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی ہوں بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالاپرورش کیا ہے۔‘‘  (بیان القرآن)

اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے  ہیں:

’’  امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حق تعالی نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے جیسا کہ سورۂ لقمان میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے " أن اشکر لی ولوالدیک" یعنی میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالی کے شکر کی طرح والدین کا شکر گذار ہونا واجب ہے، صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے کہ جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عمل محبوب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : نماز اپنے وقت (مستحب) میں ، اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک۔‘‘

( معارف القرآن:۵/ ۴۶۳)

 نیز چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

سنن ترمذی میں ہے:

" قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: الوالد أوسط أبواب الجنة، فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه."

(أبواب البر و الصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين،4/ 311،  ط: مطبعة المصطفى مصر)

ترجمہ: ’’ والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اب تمہیں اختیار ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا اسے ضائع کرو‘‘

" عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد."

(أبواب البر و الصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين،4/ 311،  ط: مطبعة المصطفى مصر)

ترجمہ : ’’ اللہ کی رضا والد کی رضا میں ہے، اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے‘‘

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أبي أمامة، أن رجلا قال: يا رسول الله، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: هما جنتك ونارك"

(كتاب الأدب، باب برالوالدين، 2/ 1208، ط: دارإحياء الكتب العربية)

ترجمہ: ’’ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ نے دریافت کیا : اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ دونوں تیری جنت یا دوزخ ہیں‘‘ یعنی ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی جہنم میں لے جاتی ہے۔

شعب الایمان میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  من أصبح مطيعا في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة، وإن كان واحدا فواحدا، ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار، وإن كان واحدا فواحدا . قال الرجل: وإن ظلماه؟ قال:  وإن ظلماه، وإن ظلماه، وإن ظلماه"

(10/ 307، ط: مكتبة الرشد الرياض)

ترجمہ: ’’جو شخص اللہ کی رضا کے لئے اپنے والدین کا فرمانبردار رہااس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے رہیں گےاور جو ان کا نافرمان ہوا اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھلے رہیں گےاور اگر والدین میں سے کوئی ایک تھا تو ایکدروازہ (جنت یا جہنم کا) کھلا رہے گا، اس پر ایک شخص نے سوال کیا: یہ (جہنم کی وعید) اس صورت میں بھی ہے جب والدین نے اولاد پر ظلم کیا ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو، اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو، اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو‘‘ (یعنی والدین کی ایذاء رسانی پر جہنم کی وعید ہے اگرچہ والدین نے اولاد پر ظلم کیا ہو)

وفیه أیضا:

"عن أبي بكرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل الذنوب يغفر الله منها ما شاء، إلا عقوق الوالدين، فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات "

(10/ 289، ط: مكتبة الرشد الرياض)

ترجمہ: ’’ دیگر سب گناہوں میں سے اللہ جو چاہیں معاف فرمادیتے ہیں سوائے والدین کے ساتھ بدسلوکی و نافرمانی کے گناہ کو، اس کی سزا اللہ تعالی نافرمان اولاد کو مرنے سے پہلے ہی دے دیتے ہیں‘‘

لہذا بیٹے کی شرعی و اخلاقی ذمہ کی داری ہے کہ اپنے بوڑھے والدین کی  راحت رسانی اور خدمت گزاری کو اپنی سعادت سمجھے اور بہو کو بھی چاہیے کہ اپنے ساس سسر کا احترام ملحوظ خاطر رکھے ، بوڑھے والدین اور ساس سسر کی نافرمانی اور ان کے ساتھ  بدسلوکی  آخرت میں سخت پکڑ کا باعث ہونے کے علاوہ دنیا میں بھی بڑے وبال کا باعث ہے۔ 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309100974

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں