بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوڑھے والدین کو خدمت کی ضرورت ہو تو انہیں چھوڑ کر بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہنا درست نہیں


سوال

میں  اپنے والدین کااکلوتا بیٹا ہوں،  میری بیوی کچھ معاملات میں  اپنی زبان سے مکر  گئی، جن  کی وجہ سے ہمارے گھر میں بہت سخت لڑائی پڑگئی، چوں کہ کچھ باتوں کا مجھے پتا ہے کہ میری بیوی جھوٹ بول رہی ہے اور میرے والدین تقریباً ستر سال کے ہیں، اور میرے سسرال والے میری بیوی کو نہیں بھیج رہے تو اس معاملے میں مجھے کیا کرنا  چاہیے؟ یاد رہے کہ میں اپنے والدین کو چھوڑ کر الگ نہیں رہ سکتا ؛ کیوں کہ وہ بہت عمر کے ہو چکے ہیں!

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی اور ان کے متعلقین کے رشتے  قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے رابطوں سے نبھائے جائیں تو  یہ  رشتے کامیاب رہتے ہیں ،اسلام نے ہرمسلمان کو تمام تعلق داروں سے حسن معاشرت کا حکم دیاہے، جیسے بیوی پرشوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح شوہر کے ذمہ بھی بیوی کے حقوق لازم ہیں، اورشوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی سمجھتے ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں جانبین کو  حقوق کے مطالبے  کے  بجائے اخلاقِ کریمانہ کا مظاہرہ کرناچاہیے، بیوی کو چاہیے کہ  اپنی ساس کی ہر بات برداشت کرے،ان کی ہر نصیحت کو  خندہ پیشانی سے سنے اورشوہر کے والدین کی خدمت کرے ،  یہ میاں بیوی دونوں کی سعادت اور اخروی نیک بختی ہے، یہ ہمت اور حوصلہ اور شوہر کے بزرگ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت بیوی کو لائقِ رشک بنادیتا ہے، نیز اس کی برکتوں کا مشاہدہ پھر میاں بیوی خود بھی کرتے ہیں؛ اس لیے میاں بیوی حتی الامکان اسی کی کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کریں، اگر ان سے کوئی سخت یا ناروا بات بھی ہوجائے تو  اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں۔

آپ کے ذمہ بیوی کا نان نفقہ اور رہائش کا انتظام ہے، رہائش سے مراد ایسا کمرہ جس میں آپ کے گھر والوں کی مداخلت نہ ہو، نیز اگر بیوی آپ کے گھر والوں کے ساتھ مشترکہ طور پر کھانا پکانا اور کھانا نہیں چاہتی تو  الگ پکانے کا انتظام کرنا ضروری ہے،اگر آپ  یہ سہولت والدین کے ساتھ  ایک ہی گھر میں فراہم کردیں تب بھی آپ کی  ذمہ داری پوری ہوجائے گی  اور  آپ کے  لیے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ کر بیوی کے ساتھ  الگ گھر میں رہنا مناسب نہیں ہوگا، اگر آپ کی گنجائش ہے اور آپ بیوی کو علیحدہ مکان میں رہائش فراہم کرسکتے ہیں تو بھی آپ کے  والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک   آپ کی ذمہ داری ہوگی، لہٰذا علیحدہ رہائش کی صورت میں بھی آپ والدین کی خدمت کرتے رہیں، اور ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھیں تو اس کی اجازت ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك".

 (الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

فتاوى شامي میں ہے:

"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".

 (مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144207201352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں