بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 محرم 1447ھ 04 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

بور کروائے گئے پانی کو آگے کرائے پر دینے کا شرعی حکم


سوال

 ہمارے قریب ایک  شخص نے بور کروائی  ، اب میں اس سے پانی لینا چاہتا ہوں تو ہمارے درمیان یہ معاملہ طے پایا کہ وہ مجھے ایک لائن دے گا جس سے میں خود پانی کھینچوں  گا اور اسے مہینہ کے  آٹھ یا دس  ہزار روپے  دوں گا   تو آیا یہ شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو صحیح طریقہ سے آگاہ فرما دیں۔

جواب

  پانی ان  مباح اشیاء میں سے ہے  جن کی  خرید و فروخت جائز نہیں ہے،   البتہ اگر کوئی شخص پانی کو اپنے کسی برتن ،  مشکیزے  یا کسی کنویں وغیرہ میں  محفوظ کرلے  پھر اس کے بعد اس کو فروخت کرے تو اس صورت میں اس کے لیے فروخت کرنا جائز ہوتا ہے۔ صورت مسئولہ میں  چونکہ بور سے نکلا ہوا پانی ، بور کرنے والے پائپ میں آ کر اس کے قبضے میں آجاتا ہے  لہذا اس پانی کو آگے فروخت کرنا شرعا جائز ہے  البتہ یہاں چوں کہ پانی  کی مقدار واضح نہیں  ، لہذ ا پانی کی  مقدار کےمجہول ہونے کی وجہ سے   مطلق پانی کی فروخت کا   معاملہ   شرعا فاسد ہوگا ، البتہ اگر بور کروانے والا شخص  پانی کھینچنے کی  کوئی مشین  یا کوئی پائپ وغیرہ سائل کو دے دے  اور اس کے استعمال کے عوض ماہوارکوئی  متعین رقم وصول کرے  یا اپنی زمین کا کچھ حصہ استعمال کرنے کا کرایہ  وصول کرے تو اس صورت میں شرعا یہ معاملہ جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے : 

"منها: أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع من المنازعة، فإن كان مجهولا ينظر إن كانت تلك الجهالة مفضية إلى المنازعة تمنع صحة العقد، وإلا فلا؛ لأن الجهالة المفضية إلى المنازعة تمنع من التسليم والتسلم فلا يحصل المقصود من العقد فكان العقد عبثا لخلوه عن العاقبة الحميدة."

(کتاب الإجارۃ، فصل فی انواع شرائط  رکن الإجارۃ، ج: 4، ص: 179-180، ط : دار الکتب العلمیة)

رد المحتار   میں ہے:

"إن صاحب البئرلایملك الماء ... و هذامادام في البئر، أما إذا أخرجه منها بالاحتیال، کمافي السواني فلاشك في ملکه له؛ لحیازته له في الکیزان، ثم صبه في البرك بعد حیازته".

(  کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب صاحب البئر لایملك الماء،ج:5، ص:67، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز بيع الماء في بئره ونهره، هكذا في الحاوي، وحيلته أن يؤاجر الدلو والرشاء، هكذا في محيط السرخسي۔ فإذا أخذه وجعله في جرة أو ما أشبهها من الأوعية فقد أحرزه فصار أحق به، فيجوز بيعه والتصرف فيه كالصيد الذي يأخذه، كذا في الذخيرة، وكذلك ماء المطر يملك بالحيازة، كذافي محيط السرخسي. وأما بيع ماء جمعه الإنسان في حوضه ذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده في شرح كتاب الشرب: أن الحوض إذا كان مجصصاً أو كان الحوض من نحاس أو صفر جاز البيع على كل حال وكأنه جعل صاحب الحوض محرز الماء بجعله في حوضه ولكن يشترط أن ينقطع الجري حتى لا يختلط المبيع بغير المبيع".

(کتاب البیوع،الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز،الفصل السابع في بيع الماء والجمد، ج:3، ص:121، ط: رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144610100377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں