بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوڑھی عورت کے لیے پردے کا حکم


سوال

کیا بوڑھی عورت بھی پردہ کی پابند ہے؟

جواب

 اگر  کسی عورت کی عمر نکاح کی میعاد سے تجاوز کرگئی ہو،  وہ اگر غیرمحرم کے سامنے چہرہ  اور ہتھیلیاں کھول دے بشرطیکہ زینت کا اظہار نہ ہو تو  کوئی حرج نہیں، البتہ باقی بدن کا پردہ اس پر بھی لازم ہوگا۔ اور چہرہ اور ہتھیلیوں کا  پردہ  اس کے لیے بھی بہتر ہے۔ باقی پردے کے اَحکام نرم ہوجانے کا یہ مطلب نہیں کہ اب اس پر نسوانی اَحکامات جاری نہیں ہوتے، جو کام مردوں کے ہیں یا جن کاموں میں غیر مردوں کے ساتھ بے محابا اختلاط یا تنہائی کی نوبت آتی ہے،  وہ اب بھی جائز نہیں ہوں گے۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ بہت زیادہ بوڑھی عورت کے لیے اگرچہ چہرے کے پردے میں سختی نہیں ہے، لیکن حج اور عمرے کے سفر میں اس کے ساتھ بھی محرم ہونا شرط ہے، بغیر محرم کے بوڑھی عورت کے لیے بھی مسافتِ سفر یا اس سے زیادہ سفر کرنا جائز نہیں ہے۔

حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں:

"جہاں فتنہ کا احتمال نہ ہو، جیسے ساٹھ ستر برس کی بڑھیاتو اس پر یہ حکم  بھی واجب نہیں  اور اگر پردہ نہ کرے توگنہگار نہ ہوگی ،ہاں تارکِ سنت ہے ۔"

(امدادالفتاویٰ، ص۱۸۰، ج۴، ط: دار العلوم، کراچی)

"اور ہر چند کہ عجائز کو کشفِ وجہ (یعنی بوڑھی عورتوں کو چہرہ کھولنے کی)  اجازت ہے، لیکن اس سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے  لیے اور زیادہ بہتر ہے ۔"

(بیان القرآن ص573،ج2، سورہ نور، آیت 33، ط: رحمانیہ)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{والقواعد من النساء الّٰتي لايرجون نكاحاً فليس عليهن جناح أن يضعن ثيابهن غير متبرجٰت بزينة وأن يستعففن خير لهن والله سميع عليم} [النور: 60]

تفسیر ابن کثیر میں ہے: 

"وقوله: {والقواعد من النساء} قال سعيد بن جبير، ومقاتل بن حيان، والضحاك، وقتاده: هن اللواتي انقطع عنهن الحيض ويئسن من الولد {اللاتي لايرجون نكاحاً} أي لم يبق لهن تشوف إلى التزوج{فليس عليهن جناح أن يضعن ثيابهن غير متبرجات بزينة} أي ليس عليها من الحرج في التستر كما على غيرها من النساء ... وقوله: {وأن يستعففن خير لهن} أي وترك وضعهن لثيابهن وإن كان جائزاً خير وأفضل لهن والله سميع عليم".

 (ج:6، ص: 77، 76، 75، النور، آية: 60، ط: دارالكتب العلمية)

الدر المختار میں ہے:

"أما العجوز التي لاتشتهي فلا بأس بمصافحتها ومس يدها إذا أمن، ومتى جاز المس جاز سفره بها، ويخلو إذا أمن عليه وعليها، وإلا لا. وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبية حرام إلا لملازمة مديونة .. . أو كانت عجوزا شوهاء". 

(ج:6، ص: 368، ط: دارالفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم إن محمداً رحمه الله تعالى أباح المس للرجل إذا كانت المرأة عجوزاً، ولم يشترط كون الرجل بحال لايجامع مثله، وفيما إذا كان الماس هي المرأة قال: إذا كانا كبيرين لايجامع مثله ولايجامع مثلها فلا بأس بالمصافحة".

(ج:5، ص: 329، ط: دارالفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومفهومه: جوازه على العجوز، بل صرحوا بجواز مصافحتها عند أمن الشهوة".

 (ج:1، ص: 617، ط: دارالفكر بيروت)

وفيه أيضًا:

"في الشفاء عن الكرميني: العجوز الشوهاء والشيخ الذي لايجامع مثله بمنزلة المحارم". 

(ج:6، ص: 368، ط: دارالفكر بيروت)

وفيه أيضًا:

"قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولاً، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزاً رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع وإن كانت شابةً رد عليها في نفسه".

(ج:6، ص: 369، ط: دارالفكر بيروت)

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144212201369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں