بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بوڑھے والد کو گھر سے نکالنے والی اولاد کا حکم / والدین کا اولاد کے لیے بددعا کرنا


سوال

میری اولاد نے مجھے بڑھاپے میں گھر سے باہر نکال دیا ہے، جب تک میرے پاس جائیداد تھی، پاور تھی تب تک اولاد میرے آگے پیچھے پھرتی تھی، لیکن پھر انھوں نے مجھے ایموشنل بلیک میل کیا اور دباؤ ڈالا کہ میں زندگی میں  ہی اپنی جائیداد تقسیم کردوں، جب میں نے ایسا کردیا، اور اپنے پاس کچھ بھی نہیں رکھا، بلکہ اپنا ذاتی گھر اور گاڑی بھی تقسیم کردیا، تو بچوں کا رویہ ہی تبدیل ہوگیا، کسی ایک بچے کے گھر میں بھی میرے لیے جگہ نہ رہی،  پہلے بیٹوں نے مجھے دکان پر جانے سے منع کیا کہ اب آپ یہاں نہ آیا کریں، پھر بہوؤں نے گھر میں تنگ کرنا شروع کردیا کہ سارا دن گھر میں نہ بیٹھا کریں ہماری پرائیویسی خراب ہوتی ہے، پھر مجھے میرے ہی گھر سے جانے کا کہا گیا کہ آپ ہر بیٹے اور بیٹی کے ہاں کچھ دن رکا کریں یہاں مستقل نہ رہیں، پھر جب میں جس بھی بچے یا بچی کے گھر جاتا تو اُن کا رویہ مجھ سے نوکروں سے بھی بدتر ہوتا اور مجھے صاف محسوس کرایا جاتا کہ "تم ہم پر بوجھ ہو"، بہرحال پھر ایک دن بہت لڑائی جھگڑا ہوا اور بالآخر اُنھوں نے مجھے گھر سے نکال دیا اور کہا کہ "ایدھی یا سیلانی میں چلے جاؤ، دوبارہ ہمارے گھر مت آنا"۔

میری بیوی کی وفات ہوئے بھی عرصہ ہوگیا ہے، اور کوئی قریبی رشتہ دار اس شہر میں نہیں ہے، البتہ میرے مرحوم کزن کا ایک بیٹا اسی شہر میں رہتا ہے اور رکشہ چلاتا ہے، اُس نے مجھے فٹ پاتھ پر پریشان بیٹھے دیکھ لیا، وہ رکا اور مجھے اپنے گھر لے گیا، اُس نے جب میری آپ بیتی سنی تو بہت افسوس کیا اور کہا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، آپ اب ہمارے گھر میں رہیں گے، آپ میرے والد صاحب کی جگہ ہیں۔

بہرحال مفتی صاحب مجھے پوچھنا یہ ہے کہ میری اولاد نے جو میرے ساتھ کیا اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟ اور کیا ایسی اولاد کے لیے میں بددعا کرسکتا ہوں؟ اُنھوں نے میرا بہت دل دکھایا ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ میں اُن کو بددعا کروں مگر نہیں کرتا اس ڈر سے کہ کہیں میری پکڑ نہ ہوجائے۔ آپ راہ نمائی کیجیے۔

جواب

واضح رہے کہ والدین اللہ رب العزت کی ایسی نعمت ہیں کہ جس کا دنیا میں کوئی بدل نہیں ہے، مخلوق میں انسان پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے اور اس کی بے لوث خدمت کرنے والے والدین ہی ہیں، اسی لیے والدین کے حقوق کو اسلام میں بہت زیادہ تاکید سے بیان کیا گیا ہے، اور اُن کی فرماں برداری کو رب تعالیٰ کی فرماں برداری، اور اُن کی نافرمانی کو رب تعالیٰ کی نافرمانی قرار دیا گیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی اطاعت کے بعد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ داروں میں سب سے زیادہ حق والدین کا ہے، اور اُن کی اطاعت ضروری ہے۔

جیسا کہ سورۂ اسراء میں ارشاد ہے:

"وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاهُمَا فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيماً () وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً () رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُوراً."

[الأسراء: ٢٣ - ٢٥]

ترجمہ: "تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اُس (معبودِ برحق) کے کسی کی عبادت مت کر اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو اگر (وہ) تیرے پاس (ہوں اور) اُن میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بوڑھاپے (کی عمر) کو پہنچ جاویں (جس کی وجہ سےمحتاج ِ خدمت ہوجاویں اور جب کہ طبعاً اُن کی خدمت کرنا ثقیل معلوم ہو) سو (اُس وقت بھی اتنا ادب کرو کہ) اُن کو کبھی (زبان سے) ہوں بھی مت کہنا اور نہ اُن کو جھڑکنا اور اُن سے خوب ادب سے بات کرنا اور اُن کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور (اُن کے لیے حق تعالیٰ سے) یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمایے جیسا کہ انھوں نے مجھ کو بچپن (کی عمر) میں پالا پرورش کیا ہے (اور صرف اس ظاہری توقیر وتعظیم پر اکتفا مت کرنا، دل میں بھی اُن کا ادب اور قصدِ اطاعت رکھنا کیوں کہ) تمہارا رب تمہارے مافی الضمیر کو خوب جانتا ہے (اور اسی وجہ سے تمہارے لیے ایک تخفیف بھی سناتے ہیں کہ) اگر تم (حقیقت میں دل ہی سے) سعادت مند ہو (اور غلطی یا تنک مزاجی یا دل تنگی سے کوئی ظاہری فروگذاشت ہوجاوے اور پھر نادم ہوکر معذرت کرلو) تو وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کردیتا ہے۔"

(بیان القرآن، ٦/ ٨١، ط: میر محمد کتب خانہ)

اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ لکھتے  ہیں:

’’  امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں حق تعالی نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا ہے جیسا کہ سورۂ لقمان میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے" أن اشكر لي ولوالديك"یعنی میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالی کے شکر کی طرح والدین کا شکر گذار ہونا واجب ہے، صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے کہ جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عمل محبوب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : نماز اپنے وقت (مستحب) میں ، اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک۔‘‘

( معارف القرآن:۵/ ۴۶۳، ط: دارالعلوم)

نیز والدین کو انسان کے لیے جنت اور دوزخ کا معیار قرار دیا گیا ہے، یعنی اُن کی فرماں برداری اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک انسان کو جنت میں لے جاسکتا ہے، اور اُن کی نافرمانی اور اُن کے ساتھ بدسلوکی انسان کو جہنم میں پہنچا سکتی ہے۔ جیسا کہ حدیثِ مبارک میں ارشاد ہے:

"عن أبي أمامة، أن رجلا قال: يا رسول الله، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: هما جنتك ونارك."

(سنن ابن ماجه، كتاب الأدب، باب برالوالدين، ٢/ ١٢٠٨، ط: دارإحياء الكتب العربية)

ترجمہ:" ’’ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ نے دریافت کیا : اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ دونوں تیری جنت اور دوزخ ہیں‘‘۔  (یعنی ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی جہنم میں لے جاتی ہے۔)"

نیز ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:

"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصبح مطيعا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن كان واحدا فواحدا. ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار وإن كان واحدا فواحدا» قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: «وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه»."

(کتاب الآداب، باب البر والصلة، ٣/ ١٣٨٢، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کے  لیے اپنے والدین کا فرماں بردار رہا، اس کے  لیے جنت کے دو دروازے کھلے رہیں گے، اور جو اُن کا نافرمان ہوا، اس کے  لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہیں گے، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک تھا تو ایک دروازہ (جنت یا جہنم کا) کھلا رہے گا، اس پر ایک شخص نے سوال کیا: یہ (جہنم کی وعید) اس صورت میں بھی ہے جب والدین نے اولاد پر ظلم کیا ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو، اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو، اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو‘‘۔  (یعنی والدین کی ایذاء رسانی پر جہنم کی وعید ہے اگرچہ والدین نے دنیاوی اُمور میں اولاد پر ظلم کیا ہو)۔"

نیز والدین کی نافرمانی  کرنا اور اُن کو تکلیف پہنچانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، ایسی اولاد کے بارے میں شریعت میں بڑی سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں، والدین کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی قرار دیا گیا ہے، اور والدین کو ستانے والی اولاد کے بارے میں ہے کہ اُسے دنیا ہی میں  نقد سزا مل جاتی ہے۔ 

جیسا کہ صحیح بخاری  میں ہے:

"وعن أنس: سُئِلَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم عن الكبائر فقال: الإشراك باللَّه، وعقوق الوالدين،وقتل النفس، وشهادة الزور".

(كتاب الشهادات، ٢/ ٣٧٤، ط: دار النوادر)

ترجمہ :" حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبیرہ گناہوں  کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ" اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی آدمی کا قتل کرنا، اور  جھوٹی گواہی دینا ۔"

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:

"وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رغم أنف رجل ذكرت عنده فلم يصل علي ورغم أنف رجل دخل عليه رمضان ثم انسلخ قبل أن يغفر له ورغم أنف رجل أدرك عنده أبواه الكبر أو أحدهما فلم يدخلاه الجنة»."

(مشكاة المصابيح، ١/ ٢٩٢، ط: المكتب الإسلامي)

 

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھے پر درود نہ بھیجا، خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس پر رمضان آیا اور اس کی بخشش سے پہلے گذر گیا اور خاک آلود ہو اس آدمی کی ناک کہ اس کے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک نے اس کے سامنے بڑھاپا پایا اور انہوں نے اسے جنت میں داخل نہیں کیا۔"

نیز ارشاد فرمایا:

"وعن عبدالله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌رضي ‌الرب في رضى الوالد وسخط الرب في سخط الوالد». رواه الترمذي."

(مشكاة المصابيح، ٣/ ٧٣٩، أبواب البر والصلة، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ: " حضرت عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: والد کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور والد کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ (ترمذی)"

(مظاہر حق، ٤/ ٥٢٩، ط: دارالاشاعت)

ایک اور حدیث میں ہے:

"وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل الذنوب يغفر الله منها ما شاء ‌إلا ‌عقوق ‌الوالدين فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات»."

(مشكاة المصابيح، أبواب البر والصلة، ٣/ ٣٨٣، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیگر سب گناہوں میں سے اللہ جو چاہیں معاف فرمادیتے ہیں سوائے والدین کے ساتھ (بدسلوکی و) نافرمانی کے گناہ کے، اس کی سزا اللہ تعالی نافرمان اولاد کو مرنے سے پہلے زندگی میں ہی دے دیتے ہیں۔"

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً آپ کے بچوں نے آپ کو بڑھاپے کی عمر میں گھر سے نکال دیا ہے، تو یہ شرعاً واخلاقاً انتہائی قبیح حرکت ہے، ایسا کرنا ناجائز ہے، اور ایسا کرنے سے وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے  جب تک وہ اپنی اس حرکت پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ  نہیں کریں گے اور آپ سے معافی مانگ کر آپ کو راضی نہیں کرلیں گے، تب تک ان کا یہ گناہ معاف نہیں ہوگا، اور اُنھیں دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں سزا اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا،بہت ممکن ہے ان سے ان کی اولاد آئندہ ایسے ہی کرے۔

لہٰذا آپ کے بچوں کو چاہیے کہ وہ اس گناہ سے اللہ کے حضور شرائط کے ساتھ سچے دل سے توبہ کریں، اور پھر اپنے والد سے بھی اپنے کیے کی معافی مانگ کر انہیں منالیں، اور گھر لے آئیں، اور جب تک والد حیات ہیں اُن کی جی جان سے خدمت کریں، اور اُنھیں خوش رکھیں۔

البتہ مذکورہ بالا حالات کی بناء پر آپ  کو اپنی اولاد کے حق میں کوئی بد دعا یا ایسے الفاظ نہیں کہنے چاہئیں جن سے اُن کا نقصان ہو؛ کیوں کہ  اولاد کا  نقصان والدین کا نقصان ہے اوروالدین پھر اس میں تکلیف محسوس کرتے ہیں، لہٰذا اُن کے حق میں بدعا کرنے کی بجائے آپ کو اللہ تعالیٰ سے ان  کے حق میں ہدایت کی دعا کرنی چاہیے، اور بڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کو معاف کردینا چاہیے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ بھی معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں، اگر آپ حق پر ہوتے ہوئے اور مظلوم ہوتے ہوئے بھی ظالموں کو معاف کردیں گے، اور اُن کے حق میں ہدایت کی دعا کریں گے، تو اس سے ایک تو خود آپ کے دل کو سکون حاصل ہوگا، اور دوسرا یہ کہ ایسا کرنے سے قوی امید ہے کہ وہ لوگ بھی اپنے رویے پر شرمندہ ہوکر آپ سے معافی تلافی کرلیں گے، اور راہِ راست پر آجائیں گے، تاہم اگر آپ اولاد کی زیادتیوں سے مجبور  ہوکر بددعا کردیں تو گناہ گار نہیں ہوں گے۔ 

تفسیرِ مدارک میں ہے:

"{وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا} [الاسراء:١١]

{وَيَدْعُ الإنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهُ بِالْخَيْرِ} أي ويدعو الله عند غضبه بالشر على نفسه وأهله وماله وولده كما يدعو لهم بالخير أو يطلب النفع العاجل وإن قل بالضرر الآجل وإن جل {وَكَانَ الإنسَانُ عَجُولاً} يتسرع إلى طلب كل ما يقع في قلبه ويخطر بباله لا يأتى فيه تأني المتبصر أو أريد بالإنسان الكافر وأنه يدعوه بالعذاب استهزاء ويستعجل به كما يدعو بالخير إذا مسته الشدة وكان الإنسان عجولاً يعني أن العذاب آتيه لا محالة فما هذا الاستعجال."

(ج: ٢، ص: ٢٤٨، ط: دار الكلم الطيب)

صحیح مسلم میں ہے:

"سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بطن بواط، وهو يطلب المجدي بن عمرو الجهني، وكان الناضح يعتقبه منا الخمسة والستة والسبعة، فدارت عقبة رجل من الأنصار على ناضح له، فأناخه فركبه، ثم بعثه فتلدن عليه بعض التلدن، فقال له: شأ، لعنك الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من هذا اللاعن بعيره؟» قال: أنا، يا رسول الله قال: «انزل عنه، فلا تصحبنا بملعون، لا تدعوا على أنفسكم، ولا تدعوا على أولادكم، ولا تدعوا على أموالكم، لا توافقوا من الله ساعة يسأل فيها عطاء، فيستجيب لكم»."

(كتاب الزهد والرقائق، باب حديث جابر الطويل وقصة أبي اليسر، ٤/ ٣٠٣، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102432

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں