بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسلمان لڑکی کا بوہری لڑکے سے نکاح کا حکم


سوال

ایک مسلمان لڑکی کی کالج میں ایک بوہری لڑکےسے ملاقات ہوئی اور اس ملاقات سے لڑکی نے اپنے والد کو پردے میں رکھا،اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ مسلمان لڑکی اُس بوہری لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے،اور اس سلسلے میں نہ ہی اپنے والد کی سنتی ہے اور نہ ہی اپنی بہنوں کی کوئی بات مانتی ہے،جب کہ دوسری طرف لڑکے کے والدین بھی اسے مسلمان لڑکی سے شادی کرنے سے روک رہے ہیں،لیکن وہ دونوں مستقل اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں،لڑکی چوں کہ شروع ہی سے لاڈ میں پلی بڑھی ہے اس لیے وہ بہت ضدی ہے اور کسی کے قابو میں نہیں ہے،باپ کی بات کا کوئی اثراس پر نہیں ہوتا،اب تھک کر باپ بھی خاموش ہوگیاہے،وہ اپنی عزت کی وجہ سے بے بس ہے کہ وہ جب بھی کچھ بولتا ہے،محلہ میں شور شرابا اور ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے،والد اس وجہ سے بہت پریشان ہے،اور یہاں تک کہہ چکا ہے کہ اگر لڑکی نے اس بوہری لڑکے سے شادی کی تو میں اس سے اپنا تعلق ختم کرلوں گا،لڑکی کے رشتہ داروں نے بھی شادی میں آنے سے منع کردیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ :

1.اس شادی کی کیا حیثیت ہے؟

2.اگر لڑکا اور لڑکی یہ شادی کرلیتے ہیں تو باپ گناہ گار تو نہیں ہوگا،جب کہ وہ اپنے طور پر روکنے کی پوری کوشش کرچکا ہے؟

3.ان دونوں کا ایک نکاح مسلمانوں کے طریقے سے ہوگا اور دوسرا نکاح بوہریوں کے طریقے سے ہوگا،تو جو لوگ مسلمانوں کے طریقے سے ہونے والے نکاح میں گواہ بنیں گےوہ گناہ گار ہوں گے یا نہیں؟

4.اور اس شادی میں جو مسلمان شریک ہوں گے وہ گناہ گار ہوں گے یا نہیں؟

جواب

1.فرقۂ بوہریہ اپنے باطل عقائد اور کفریہ نظریات کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں  اورشیعوں کے اسماعیلی فرقے ہی کی ایک شاخ ہے،اس لیے ان کے ساتھ قلبی تعلقات،دوستی رکھنا اور ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہے،ہاں اگرلڑکا بوہری مذہب سے توبہ کرکے اسلام میں داخل ہوجائےتو اس سے نکاح کرناجائز ہوگا۔

2.اگر باپ کے منع کرنے کے باوجود لڑکی بوہری لڑکےسے نکاح کرے گی تو باپ گناہ گار نہیں ہوگا،باقی اس نکاح کے شریعت میں معتبر نہ ہونے کی وجہ سے لڑکی گناہ یعنی زنا کی زندگی گزارے گی۔

3-4.جب تک لڑکا بوہری مذہب سے توبہ کرکے مسلمان نہیں بنےگا،تو لڑکی اس سے کسی بھی طریقے سے نکاح کرےاور کہیں بھی نکاح کرے،نکاح نہیں ہوگا،اس میں شرکت کرنا اور گواہ بنناناجائز اور حرام ہے،بلکہ اس نکاح کوجائز سمجھنے کی صورت میں تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کرنالازم ہوگا،اور مسلمانوں کے لیے ایسی لڑکی سے کسی قسم کا بھی تعلق رکھناجائز نہیں ہوگا،بلکہ بائیکاٹ کرنا لازم ہوگا۔

القرآن الكريم  میں ہے:

"وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ."

’’ترجمہ:اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔‘‘

(سورة المائدة،الآية:٢)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن ابن عمر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تتبع جنازة معها رانة.

وهذا أصل أصيل في عدم ‌الحضور عند مجلس فيه ‌المحظور."

(ص:١٢٥٠،ج:٣،کتاب الجنائز،باب البکاء علی المیت،ط:دار الفکر،بیروت)

فتح الباري  میں ہے:

"قال ابن عبد البر: أجمعوا على أنه لا يجوز الهجران فوق ثلاث إلا لمن خاف من مكالمته ما يفسد عليه دينه أو يدخل منه على نفسه أو دنياه مضرة، فإن كان كذلك جاز، ورب هجر جميل خير من ‌مخالطة ‌مؤذية."

(ص:٤٩٦،ج:١٠،کتاب الأدب،باب الهجرة وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحل لرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث،ط:دار المعرفة)

رد المحتار على الدر المختارمیں ہے:

"وكذا من علم أنه ينكر في الباطن بعض الضروريات كحرمة الخمر ويظهر اعتقاد حرمته.

يعلم مما هنا حكم الدروز والتيامنة فإنهم في البلاد الشامية يظهرون الإسلام والصوم والصلاة مع أنهم يعتقدون تناسخ الأرواح وحل الخمر والزنا وأن الألوهية تظهر في شخص بعد شخص ويجحدون الحشر والصوم والصلاة والحج، ويقولون المسمى به غير المعنى المراد ويتكلمون في جناب نبينا صلى الله عليه وسلم كلمات فظيعة. وللعلامة المحقق عبد الرحمن العمادي فيهم فتوى مطولة، وذكر فيها أنهم ينتحلون عقائد النصيرية ‌والإسماعيلية الذين يلقبون بالقرامطة والباطنية الذين ذكرهم صاحب المواقف. ونقل عن علماء المذاهب الأربعة أنه لا يحل إقرارهم في ديار الإسلام بجزية ولا غيرها، ولا تحل مناكحتهم ولا ذبائحهم."

(ص:٢٤٤،ج:٤،کتاب الجهاد،باب المرتد،مطلب حكم الدروز والتيامنة والنصيرية ‌والإسماعيلية،ط:ایج ایم سعید)

الفتاوي الهنديةمیں ہے:

"لا يجوز نكاح المجوسيات ولا الوثنيات وسواء في ذلك الحرائر منهن والإماء، كذا في السراج الوهاج. ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية وكل مذهب يكفر به معتقده."

(ص:٢٨١،ج:١،کتاب النکاح،الباب الثالث،القسم السابع،ط:دار الفکر،بیروت) 

البحر الرائقمیں ہے:

"(ويقتص من المكره فقط) ، وهذا قول الإمام ومحمد، وقال زفر يجب القصاص على المكره دون المكره؛ لأن القصاص يجب على القاتل والقاتل هو المكره حقيقة؛لأنه ‌المباشر ولهذا يتعلق ‌الإثم به."

(ص:٨٤،ج:٨،کتاب الإكراه،ط:دار الکتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں