بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بوہری فرقے کے عقائد اور بوہری لڑکے سے سنی لڑکی کے نکاح اور اولاد کےنسب کا حکم


سوال

میری بیٹی نے بذریعہ کورٹ ایک بوہری لڑکے سے نکاح کیا، جب کہ میں کسی طور پر بھی اپنی بیٹی کی رخصتی کے لیے  تیار نہیں تھا، جس پر اس لڑکے نے میرے خلاف  تھانے میں درخواست دی کہ میری بیوی کو زبردستی اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے، اور اپنی بیٹی کی رخصتی نہیں کر رہے، لہٰذا مجبورًا  مجھے عدالت میں پیش کیا گیا، اور میری بیٹی کو بھی پیش کیا گیا، جس پر میری بیٹی نے میرے خلاف بیان دیا، اور مجھے مجبورًا بذریعہ کورٹ اپنی بیٹی کی رخصتی کرنی پڑی، اس عرصے میں  میں بہت ذہنی پریشانی کا شکار رہا،میرا بیٹی سے رابطہ بھی نہیں رہا، کچھ دنوں بعد میری بیٹی کے اوپر اس لڑکے اور اس کی والدہ نے دباؤ ڈالا کہ تو میرے  ساتھ بوہری  جماعت خانے میں دوبارہ نکاح کرنے چل،اور تجھے باقاعدہ بوہری جماعت میں شامل ہونا پڑے گا،جس پر میری بیٹی نے کہا کہ میں اہلِ سنت والجماعت کی ہوں، میں اپنا فرقہ تبدیل نہیں کروں گی، اور واپس میرے پاس آگئی، آپ سے التماس ہے کہ آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ نکاح اسلام میں جائز ہے؟  اور بوہری جماعت کے لوگ ہمارے دین اسلام میں داخل ہیں کہ نہیں؟ میں بہت پریشان ہوں اور ختم نبوت پر میرا  پکا ایمان ہے، اس بارے میں فتوی جاری کریں کہ میری بیٹی کو کیا کرنا چاہیے اب؟

وضاحت: میری بیٹی کو حمل بھی ہے، اس کے متعلق بھی شرعی رہنمائی کریں۔

لڑكي كو معلوم  بھی تھا کہ لڑکا بوہری ہے، اور یہ غیر مسلم ہوتے ہیں، میں نے بھی بار بار بتایا کہ ان سے نکاح نہیں ہوتا۔

جواب

واضح رہے کہ بوہری   بہت سارے بنیادی عقائد میں  مسلمانوں سے الگ اپنے منفرد نظریات رکھتے ہیں ، ذیل میں بطورِ مثال  ان کےچند عقائد درج کیے جاتے ہیں:

1۔توحید:

مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے،اس کے بہت سارے صفات ہیں، مگر اس کی ذات کی طرح صفات میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے،اور بوہری فرقے کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے،مگر وہ کسی صفت  یا نعت سے موصوف ومنعوت نہیں ہے، اسے کسی صفت کے ساتھ  موصوف کرنا گویا ان کی ذات میں کثرت پیدا کرنا ہے،مثلاً اگر ہم اسے قادر کہیں  تو لفظ  قادر  یہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ  قدرت اور مقدور علیہ کا بھی تصور ہو، یہی حالت تمام صفات کی  ہے، ایک چیز ثابت کرنے سے دوسری دو چیزیں بھی اس کے ساتھ شریک ہوجاتی ہیں،لہٰذاتمام صفات حقیقت میں اس مبدع اول پر واقع ہوتی  ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا کیا،اور اس کا دوسرا نام عقلِ اول ہے،جب کہ عالمِ جسمانی میں یہ صفات  امام پر صادق آتی ہیں، کیوں کہ وہ عقلِ اول کے مقابل قائم ہے۔

2۔3۔رسالت و ختم نبوت:

بوہری انبیاء  کو نطقاء کہتے ہیں، ان کے ہاں ہر ناطق ایک مستقر امام کا نائب اور قائم  مقام ہوتا ہے جسے صامت کہا جاتا ہے،اور نطقاء کے کل سات ادوار  ہیں،  نبی کے ناطق ہونے کا مطلب یہ ہےکہ اس کا فرض صرف اللہ تعالیٰ کی شریعت کا اظہار ہوتا ہے،جب کہ باطن کی ذمہ داری صامت کی ہوتی ہے،اور ہر صامت کو سابقہ شریعت منسوخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، چنانچہ ساتویں صامت محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق ہیں، جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی  ظاہری شریعت کو معطل کیا اور باطن کو کشف کیا، یہی ساتویں وصی اور رسول ہیں،اور یوم آخر میں قائم القیامہ ہیں،یوں یہ قرقہ عقیدہ ختم نبوت کا بھی منکر ٹھہرا۔

4۔کلمہ:

مسلمانوں کا کلمہ "لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ " ہے جب کہ بوہریوں کا کلمہ "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ مولانا علی ولی اللہ وصی رسول اللہ" ہے۔

5۔عقیدہ امامت:

امام معصوم ہوتا ہے،اس سے خطا سرزد نہیں ہوسکتی،امام علمِ خدا کا خازن اور علم نبوت کا وارث ہوتا ہے، ائمہ کو شریعت میں ترمیم وتینسیخ کا اختیار ہوتا ہے، قرآن میں  باری تعالیٰ کی  جو صفات وارد  ہوئی ہیں ان سے حقیقت میں ائمہ موصوف مراد ہیں۔

(ملخص از تاریخ فاطمیین مصر،ص538تا568،ط: دار الطبع حیدرآباد دکن)

ان بنیادی عقائد کے علاوہ یہ لوگ اعلانیہ سود لیتے ہیں، دیوالی کے موقع پر روشنی کرتے ہیں، مسجد ،قبرستان جماعت خانہ وغیرہ سب ان کے مسلمانوں سے  علیحدہ ہیں،  اذان میں "اشہد ان محمدا  رسول اللہ "  کے بعد (اشہد ان مولا علیا ولی اللہ)   کے اضافے کو ضروری سمجھتے ہیں۔

(اسماعیلیہ،ص123،ط:الرحیم اکیڈمی)

مذکورہ  باطل ،شرکیہ اور کفریہ عقائد  کی وجہ سے بوہری فرقہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

 اس وجہ سے کسی سنی لڑکے/لڑکی کا بوہری لڑکے/لڑکی سے  نکاح کرنا شرعًا درست نہیں ہے، لہٰذا سائل کی بیٹی کا نکاح مذکورہ  بوہری لڑکے سے  منعقد ہی نہیں ہوا، مسلمان لڑکی پر ضروری ہے کہ فورًا الگ ہوجائے اور اب تک جو گناہ ہوا ہے  اس سے توبہ و استغفار کرے،اور اس عقد سے جو اولاد ہوگی اس کا نسب بوہری لڑکے سے ثابت نہیں ہوگا،البتہ ماں کے تابع ہوکر مسلمان شمار ہوگا،اب اگر لڑکی كسی اور جگہ نكاح كرنا چاہے تو شرعاً كرسكتی ہے،البتہ قانونی تحفظ حاصل کرنے کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنے سے پہلے  عدالت سے خلع حاصل کرلے،تاکہ پولیس تنگ نہ کرے،اس میں بوہری لڑکے  کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے،یکطرفہ خلع بھی کافی ہے۔

الملل والنحل  للشھرستانی میں ہے:

" فقالوا في الباري تعالى: إنا لا نقول: هو موجود، ولا لا موجود، ولا عالم ولا جاهل، ولا قادر ولا عاجز. وكذلك في جميع الصفات، فإن الإثبات الحقيقي ‌يقتضي ‌شركة بينة وبين سائر الموجودات في الجهة التي أطلقنا عليه، وذلك تشبيه. فلم يكن الحكم بالإثبات المطلق والنفي المطلق، بل هو إله المتقابلين وخالق المتخاصمين، والحاكم بين المتضادين. ونقلوا في هذا نصا عن محمد بن علي الباقر أنه قال: "لما وهب العلم للعالمين قيل هو عالم، ولما وهب القدرة للقادرين قيل هو قادر. فهو عالم قادر بمعنى أنه وهب العلم والقدرة؛ لا بمعنى أنه قام به العلم والقدرة، أو وصف بالعلم والقدرة فقيل فيهم إنهم نفاة الصفات حقيقة، معطلة الذات عن جميع الصفات".

            (الباب الاول المسلمون،الفصل السادس الشیعۃ الاسماعیلیہ،ج1،ص193،ط:مؤسسۃ الحلبی)

وفیہ ایضا:

قالوا: وبعد إسماعيل محمد بن إسماعيل السابع التام. وإنما تم دور السبعة به. ثم ابتدئ منه بالأئمة المستورين الذين كانوا يسيرون في البلاد سرا، ويظهرون الدعاة جهرا قالوا: ولن تخلو الأرض قط من إمام حي قائم، إما ظاهر مكشوف، وإما باطن مستور. فإذا كان الإمام ظاهرا جاز أن يكون حجته مستورا. وإذا كان الإمام مستورا فلا بد أن يكون حجته ودعاته ظاهرين وقالوا: إن الأئمة تدور أحكامهم على سبعة سبعة كأيام الأسبوع، والسموات السبع، والكواكب السبعة

            (الباب الاول المسلمون،الفصل السادس الشیعۃ الاسماعیلیہ،ج1،ص192،ط:مؤسسۃ الحلبی)

 وفيه ايضا:

"فوجب أن يكون في هذا العالم عقل مشخص  يسمونه الناطق، وهو النبي ونفس  مشخصة، ويسمونه الأساس، وهو الوصي قالوا: وكما تحركت الأفلاك والطبائع بتحريك النفس والعقل، كذلك تحركت النفوس والأشخاص بالشرائع بتحريك النبي والوصي في كل زمان دائرا على سبعة سبعة حتى ينتهي إلى الدور الأخير، ويدخل زمان القيامة، وترتفع التكاليف، وتضمحل السنن والشرائع."

            (الباب الاول المسلمون،الفصل السادس الشیعۃ الاسماعیلیہ،ج1،ص194،ط:مؤسسۃ الحلبی)

اساس التاویل میں ہے:

"الناطق هو صاحب الشریعة، و الصامت هو أساس الشریعة في عھد الناطق، و صاحب تأویلها، فالرسول ینطق  بالظاهر والأساس صامت عنه أي عن الظاهر مؤدی للباطن الذي أثبته الرسول."

(ص40،ط:منشورات دار الثقافۃ بیروت)

 رد المحتار میں ہے:

"ما كان ‌من ‌ضروريات ‌الدين و هو ما يعرف الخواص و العوام أنه من الدين كوجوب اعتقاد التوحيد و الرسالة و الصلوات الخمس و أخواتها يكفر منكره."

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج2،ص5،ط:سعید)

          ہندیہ میں ہے:

"لایجوز نکاح المجوسیات و لا الوثنیات ...و یدخل في عبدۃ الأوثان عبدۃ الشمس و النجوم و الصور التی استحسنوها و المعطلة و الزنادقة و الباطنیة و الإباحیة و کل مذهب یکفر به معتقده، كذا في فتح القدیر."

(الباب الثالث فی بیان المحرمات، القسم السابع  المحرمات بالشرک،ج1،ص281،ط:ماجدیہ)

الدر مع الرد میں ہے:

"و في مجمع الفتاوی: نكح كافر مسلمة فولدت منه لايثبت النسب منه و لاتجب العدة لأنه نكاح باطل."

و قال الشامي:

"أي فالوطء فيه زنا لايثبت به النسب، بخلاف الفاسد فإنه وطء بشبهة فيثبت به النسب و لذا تكون بالفاسد فراشّا لا بالباطل."

( كتاب النكاح، فصل في ثبوت النسب، 3/ 555)

وفیه أیضًا:

"(قوله: فأسلم هو) أي أحد أبويه ح أي فإن الصبي يصير مسلمًا لأن الولد يتبع خير الأبوين دينًا. ولا فرق بين كون الولد مميزًا أو لا كما مر."

(باب الحضانة، 2/ 230)

وفيه أيضًا:

"(و) صح نكاح (حبلى من زنى لا) حبلى (من غيره) أي الزنى لثبوت نسبه ولو من حربي أو سيدها المقر به (وإن حرم وطؤها) ودواعيه (حتى تضع) متصل بالمسألة الأولى لئلايسقي ماءه زرع غيره إذ الشعر ينبت منه."

(كتاب النكاح،ج3،ص49،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں