بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بوگو ڈسکاؤنٹ کا حکم


سوال

بوگو ڈسکاؤنٹ  کے بارے میں بتائیں  حلال ہے یا حرام ؟

جواب

’’بوگو‘‘  ایک ادارہ ہے جو ایک واؤچر بک جاری کرتا ہے  جس میں مختلف ہوٹلز اور کمپنیوں کی مخصوص اشیاء یا مخصوص خدمات کے کوپن ہوتے ہیں، اور اس کی ایک مدت ہوتی ہے،  واؤچر خریدنے والا ایک سال کے دوران جب  اس کمپنی یا ہوٹل کے پاس جائے گا اور کوپن میں موجود چیز خریدے گا تو اس کو کمپنی یا ہوٹل کی طرف سے خریدی ہوئی چیز سے اضافی کوئی چیز  یا کوئی مفت سہولت یا ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔

اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ  خرید و فروخت  میں دونوں طرف "مال"   کا ہونا ضروری ہے اور اگر سودے میں ایک طرف مال ہو اور دوسری طرف صرف حق ہو، مال نہ ہو تو ایسا سودا شرعاً ناجائز ہوتا ہے۔  بوگو بک  یاکسی بھی کمپنی سے ایسا  کتابچہ خریدنا جس سے مختلف ریسٹورنٹ اور دکانوں سے  اشیاء خریدنے پر رعایت  ملتی ہو در اصل مذکورہ رعایت کا حق خریدنا ہے،  کیوں کہ اس کتابچہ کی وجہ سے ملنے والی رعایت  دیگر اداروں سے خریدی گئی اشیاء کے تابع ہے، اور اس رعایت کو حاصل کرنے کے لیے دیگر اداروں سے اشیاء کی خریداری ضروری ہے اور اس کتابچہ کا اسی رعایت کی وجہ سے قصد کیا جاتا ہے۔اور  یہ ایک حقِ مجرد ہے اور شرعاًحقوقِ مجردہ کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے؛ لہذا مذکورہ واوچر/ کتابچہ جس کی بنا پر دیگر اداروں میں ڈسکاونٹ ملتا ہے، خریدنا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق   میں ہے :

"(هو مبادلة المال بالمال بالتراضي) من استبدلت الثوب بغيره أو بدلت الثوب بغيره أبدله من باب قتل، كذا في المصباح. وفي المعراج ما يدل على أنها بمعنى التمليك؛ لأن بعضهم زاد على جهة التمليك، فقال فيه: لا حاجة إليه؛ لأن المبادلة تدل عليه، والمال في اللغة: ما ملكته من شيء، والجمع أموال، كذا في القاموس. وفي الكشف الكبير: المال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة".

(کتاب البیوع،ج:5،ص:277،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"اعلم أن الحق في العادة يذكر فيما هو تبع للمبيع، ولا بد له منه ولايقصد إلا لأجله كالطريق والشرب للأرض".

(کتاب البیوع،باب الحقوق فی البیع،ج:5،ص:187،سعید)

وفيه أيضاّ:

"لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة ،كحق الشفعة". 

(كتاب البيوع،ج:4،ص:518،سعيد)

مزید تفصیل کے لیے  دیکھیے :

بوگو بک (Bogo) اور واؤچ 365 (Vouch365) کا استعمال اور اس کے ذریعہ خریداری کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100421

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں