بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈ ڈونیٹ کیمپ کے قیام سے متعلق چند سوالات


سوال

میں انڈیا کے ایک علاقے کا رہنے والا ہوں، ہمارے یہاں ایک رفاہی گروپ ہے جو بہت ساری رفاہی خدمات انجام دیتا ہے جن میں سے ایک بلڈ ڈونیشن کی خدمت ہے، جس کی صورت حال یہ ہے کہ سال بھر میں ایک مرتبہ بلڈ کیمپ قائم کیا جاتا ہے اور حاصل شدہ بلڈ بلڈ بینک میں جمع کروا کر اس کے عوض کارڈ  لیے جاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ضرورت مندوں کو بلا عوض وہ کارڈ فراہم کرتے ہیں،  جن کی وجہ سے انہیں مفت میں بلڈ مل جاتا ہے۔

نوٹ: یہاں کے بہت سارے مفتیان کرام اور علماء اس بلڈ کیمپ کے نظم و ضبط میں شرکت کرتے ہیں اور بلڈ ڈونیٹ بھی کرتے ہیں- اب چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں :

۱: یہ رضاکارانہ بلڈ کیمپ قائم کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

۲: اس رضاکارانہ بلڈ کیمپ میں بلڈ ڈونیٹ کرنے والے کو انتظامیہ کی طرف سے بطور گفٹ کوئی چیز (ڈنر سیٹ وغیرہ) دی جاتی ہے تو اس کا دینا اور لینا کیسا ہے؟

۳: بلڈ کیمپ کا اشتہار ہی اس طور پر کرنا کہ خون کا عطیہ کرنے والے کو گفٹ دیا جائے گا، اس کا کیا حکم ہے؟

۴: کوئی شخص گفٹ کی غرض سے خون کا عطیہ کرے تو کیا حکم ہے؟

۵: اس کے نظم میں کسی مفتی یا عالم کی شرکت کا کیا حکم ہے؟

۶: مذکورہ بالا رفاہی گروپ میں اجرت پر کام کرنے والے مفتی یا عالم کی اس بلڈ کیمپ میں شرکت کا کیا حکم ہے؟

۷: میں امام ہوں اور گروپ کے ذمے داروں نے  مجھے اس بلڈ کیمپ میں لوگ زیادہ سے زیادہ شرکت  کریں، اس طرح کی کوئی تقریر (قرآن وحدیث کی روشنی میں) کرنے کو کہا ہے تو کیا اس کی گنجائش ہے؟

۸: عمومی طور پر ڈاکٹر حضرات کا یہ کہنا ہے کہ ہر تین ماہ میں ایک مرتبہ خون کا عطیہ کرنے سے صحت اچھی رہتی ہے تو اس غرض سے خون کا عطیہ کرنے  کا حکم کیا ہے؟

۹:بلڈ کیمپ قائم کرنے کے  لیے دو لاکھ سے زائد روپے خرچ ہوتے ہیں،  جو بہت بڑی رقم ہے تو اس میں للہ رقم کے ساتھ کچھ زکوٰۃ کی رقم کا حیلہ کر کے استعمال کرنا کیسا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ خون جب  جسم سے نکل جائے تو وہ  نجس اور ناپاک ہے، اس کا اصل تقاضا یہ  ہے کہ  اس کی  کسی دوسرے کے جسم میں منتقلی حرام ہو، لیکن اضطراری حالات اور ضرورتِ شدیدہ کے موقع پر  فقہاء نے   اس کے استعمال کی اجازت دی ہے،  البتہ اس کی نجاست  کے پیشِ نظر  اس کے استعمال کا حکم وہی ہے جو دوسری حرام اور نجس چیزوں کے استعمال کا ہے یعنی:

(۱)جب مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر  میں خون دیے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہوتو خون دینا جائز ہے۔

(۲)جب ماہر ڈاکٹر کی نظر  میں خون دینے کی حاجت ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو، لیکن اس کی رائے  میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو ، تب بھی خون دینا جائز ہے۔

(۳) جب خون نہ دینے کی صورت میں  ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا  اندیشہ  ہو، ا س   صورت میں بھی   خون دینے  کی گنجائش ہے، مگر  اجتناب بہتر ہے۔ ان تمام صورتوں میں خون کاعطیہ دینا توجائز ہے، مگر خون کامعاوضہ لینادرست نہیں ہے۔

(۴) جب خون دینے سے محض منفعت و زینت اور قوت بڑھانا    مقصود ہو،  ایسی  صورت میں خون دینا  جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں:

۱۔ اگر محض  انسانی  ہمدری  کے تحت بلڈ بینک  قائم کیا جاتا  ہو؛ تاکہ    اس سےضرورت مندوں کوخون فراہم کیا جائے،تو یہ     ایک مستحسن عمل ہے ۔

۲،۳،۴ ۔  خون عطیہ کرنے  پر ہدیہ   دینا جب کہ وہ مشروط  ہو (یعنی  خون عطیہ کرنے سے پہلے یہ شرط ہو کہ اگر خون دیں گے تو بدلہ میں ہدیہ (گفٹ ) دیا جائے گا)  یا مشروط نہ ہو لیکن معروف و مشہور ہو کہ  خون عطیہ کرنے پر ہدیہ ملتا ہی ہو تو  یہ  درست نہیں ؛  اس لیے  کہ یہ خون  کو ہدیہ کے عوض فروخت کرنا ہے جو کہ شرعًا جائز نہیں ،اسی طرح بلڈ کیمپ کے اشتہار میں  یہ لکھنا کہ خون عطیہ کرنے پر ہدیہ  دیا جائے گا یہ بھی درست نہیں،  البتہ اگر اشتہار میں ہدیہ کا ذکر نہ کیا جائے اور  جب کوئی خون دینے آئے تو پہلے سے  ہدیہ کی   شرط نہ  لگائی جائی اور نہ ہی ہدیہ دینا معروف  ہو، محض ترغیبًا کبھی  کسی کو ہدیہ دیا جاتا ہواور کبھی  نہ  دیا جاتاہو  تو اس  ہدیہ کا لینا اور دینا درست ہو گا۔

۵۔اس کے نظم میں مفتی یا عالم دین کی شرکت صحیح،  بلکہ  اس اعتبار سے  ضروری  ہے  کہ جہاں شرعی اعتبار سے کوئی غلطی ہورہی اس کی اصلاح ہوتی رہے۔

۶۔مذکورہ بالا رفاہی گروپ میں اجرت پر کام کرنے والے علماء کرام کا  بلڈ کیمپ میں شرکت کرنا صحیح ہے۔

۷۔ اوپر ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ شدید ضرورت کے موقع پر خون کا عطیہ کرنا  جائز ہے اور جو ادارے ضرورت کے لیے ہی مریضوں کے واسطے خون جمع کرتے ہیں ان کا   یہ کام بھی جائز ہے ،لہذ ا سائل  اگر اپنی  کسی تقریر میں لوگوں کو مکمل تفصیل کے  ساتھ صحیح مسئلہ کی طرف رہنمائی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

۸۔اس کا جواب بھی  مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ محض ڈاکٹروں کی اس بات پر کہ ’’ہر تین ماہ میں ایک مرتبہ خون کا عطیہ صحت کے لیے مفید ہے ‘‘،  خون کے عطیہ کرنے کی اجازت نہیں ،جب تک ضرورت شدیدہ  پیش نہ آجائے ۔

۹۔زکا ۃ  اور صدقات واجبہ کی رقم مستحق زکوۃ کو ہی دینا ضروری ہے ،لہذا مذکورہ بلڈ کیمپ کے قیام کے لیے  زکاۃ اور  صدقات واجبہ  کے علاوہ  دیگر  فنڈز سے رقم  حاصل کی جائے ۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عون بن أبي جحيفة، قال: رأيت أبي، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الدم، وثمن الكلب، وآكل الربا وموكله، والواشمة والمستوشمة."

(صحيح البخاري ، كتاب اللباس ، باب الواشمة۴ /۲۶۵۷ط: بشری)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(و لم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية. وفي البحر: لا يجوز ‌التداوي ‌بالمحرم في ظاهر المذهب، أصله بول المأكول كما مر (قوله: و في البحر) عبارته: وعلى هذا أي الفرع المذكور لا يجوز الانتفاع به للتداوي. قال في الفتح: وأهل الطب يثبتون للبن البنت أي الذي نزل بسبب بنت مرضعة نفعا لوجع العين. واختلف المشايخ فيه، قيل لا يجوز، وقيل يجوز إذا علم أنه يزول به الرمد.

و لايخفى أن حقيقة العلم متعذرة، فالمراد إذا غلب على الظن و إلا فهو معنى المنع اهـ. ولا يخفى أن ‌التداوي ‌بالمحرم لا يجوز في ظاهر المذهب، أصله بول ما يؤكل لحمه فإنه لايشرب أصلًا. اهـ. (قوله: بالمحرم) أي المحرم استعماله طاهرا كان أو نجسا ح (قوله: كما مر) أي قبيل فصل البئر حيث قال: فرع اختلف في ‌التداوي ‌بالمحرم. وظاهر المذهب المنع كما في إرضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما خص الخمر للعطشان وعليه الفتوى. اهـ. ح."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج3،ص211،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه."

( كتا ب الكراهية الباب الثامن عشر في التداوي۵ /۳۵۵ط: رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"(النوع الثاني) العوض المشروط في عقد الهبة فإن كانت الهبة بشرط العوض شرط لها شرائط الهبة في الابتداء حتى لا يصح في المشاع الذي يحتمل القسمة ولا يثبت بها الملك قبل القبض، ولكل واحد منهما أن يمتنع من التسليم وبعد التقابض يثبت لها حكم البيع فلا يكون لأحدهما أن يرجع فيما كان له ويثبت بها الشفعة ولكل واحد منهما أن يرد بالعيب ما قبض، والصدقة بشرط العوض بمنزلة الهبة بشرط العوض."

 (كتاب الهبة,الباب السابع في حكم العوض في الهبة,4/ 394ط:دار الفكر)

درر الحكام فی شرح مجلۃ الأحكام میں  ہے:

[ ‌‌(المادة 43) المعروف عرفا كالمشروط شرطا]

"المعروف عرفا كالمشروط شرطا وفي الكتب الفقهية عبارات أخرى بهذا المعنى " الثابت بالعرف كالثابت بدليل شرعي " و " المعروف عرفا كالمشروط شرعا " و " الثابت بالعرف كالثابت بالنص والمعروف بالعرف كالمشروط باللفظ، وقد سبق لنا أن عرفنا العرف والعادة."

(1/ 51ط:دارالجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308100823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں