بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈ بینک کا شرعی حکم


سوال

آج کل خون کی کثرت سے ضرورت پڑتی ہے، بسااوقات کسی حادثے کی وجہ سے لوگوں کو یا حاملہ عورت کو بہت خون کی ضرورت پڑجاتی ہے، جس کا فوری طور پر دست یاب ہونا مشکل ہوتا ہے، اس  کے  لیے بلڈ بینک کا نظام ہے۔اگر وہاں خون جمع کیا ہواہے تو پھر کتنی ہی مقدار ہو،  فوری خون دست یاب ہوجاتا ہے۔ بلڈ بینک میں خون جمع رکھنے کے  لیے لوگوں کو ترغیب دے کر بلڈ کیمپ لگائے جاتے ہیں؛ تاکہ خون کا ایک خزانہ جمع رہے اور مریضوں کو بلامعاوضہ فراہم کرایا جاسکے۔

مفتی نظام الدین  رحمہ اللہ،  سابق صدر  مفتی دار العلوم دیوبند فرماتے ہیں:

"جب خون کے استعمال کی گو بدرجہ مجبوری گنجائش ہوگئی، تو  چوں کہ ایسی مجبوری اچانک بھی پیدا ہوجاتی ہے، اور خون کی بہت زیادہ مقدار کی متقاضی ہوجاتی ہے، جیسے ریل کی ایکسیڈنٹ کے موقع پر ؛ اس لیے اچانک پیش آمدہ ضروریات کے  لیے ہر نمبر کے خون کا فراہم رکھنا ضروری ہوگااور اس کا ایک خزانہ بنانا بھی لازم ہوگا ، جس کو آج کل کی اصطلاح میں بینک کا نام دیا جاتا ہے۔"

(منتخبات نظام الفتاوی 3/78)

تو کیا بلڈ بینک میں فوری ضرورت کے لیے خون جمع کرنا اور خون عطیہ کیمپ لگانا درست ہوگا؟

جواب

واضح رہےکہ خون  انسانی  بدن کا جزو  ہے؛ اس لیے شرعی نقطۂ  نظرسے انسانی عزت  و عظمت  کی خاطر اپنے جسم کا کوئی بھی جزو اپنے اختیار سے عطیہ دینایا اس کی خرید و فروخت کرنا جائز نہیں،تاہم ضرورت کادائرہ الگ ہے ،  چنانچہ اگرکسی مریض کوخون کی ضرورت ہو اور  ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان جانے یا مرض طویل ہوجانے کا اندیشہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہ ہو تو ایسی صورتِ  حال میں خون بطورِ  عطیہ دینا جائز ہے، اور اس طرح ایک مسلمان کی صحت اور جان بچانےکےلیےخون کاعطیہ دینے پر اللہ تعالی سے اجرو ثواب کی بھی امید ہے۔البتہ اس صورتِ حال میں بھی خون کا بیچنا کسی صورت جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ خون نجس ہے اور شرعًا مال نہیں ہے، جو  چیز مال ہی نہ ہو اس کے بیچنے کی کوئی جائز صورت بھی  نہیں ہے۔

لہذا اگر محض  انسانی  ہمدری  کے تحت بلڈ بینک  قائم   کیا گیا ہو؛ تاکہ    اس سےضرورت مندوں کوخون فراہم کیا جائے،تو یہ ایک مستحسن عمل ہے ۔ لیکن لوگوں سے خون کاعطیہ لے کر اسے پیسوں  کے عوض فروخت کرناجائز نہیں ہے ۔ اورجولوگ خون فروخت کرتے ہیں انہیں خون کاعطیہ دینابھی  "تعان على الاثم"  ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے ۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عون بن أبي جحيفة، قال: رأيت أبي، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الدم، وثمن الكلب، وآكل الربا وموكله، والواشمة والمستوشمة."

(صحيح البخاري ، كتاب اللباس ، باب الواشمة۴ /۲۶۵۷ط: بشری)

مجمع الانہرمیں ہے:

وفي شرح المنظومة الإرضاع بعد مدته حرام؛ لأنه جزء الآدمي والانتفاع به غير ضرورة حرام على الصحيح وأجاز البعض التداوي به؛ لأنه عند الضرورة لم يبق حرامًا۔

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، مايحرم بالرضاع۱ /۳۷۶ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه.

(الفتاوي الهندية كتا ب الكراهية الباب الثامن عشر في التداوي۵ /۳۵۵ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں