بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلوغت کے بعد سے قضاء نمازوں کی ترتیب کا طریقہ


سوال

میرے بالغ ہونے کے  بعد سے 7 سال کی نمازیں قضا ہو گئی تھیں، میں نےنمازوں کی قضا اس طرح سے شروع کی تھی کہ اگر ہر نماز کے ساتھ ایک قضا نماز پڑھتا رہوں تو 2028 کی 6 مارچ کو میری قضا نمازیں پوری ہوجائیں گی ، چناں چہ میں نے دو سال تک اس طرح ہر نماز کے ساتھ ایک قضا نماز ادا کرتا رہا،  لیکن میں نے نمازوں کی تعداد تعین نہیں کی کہ میری فجر کی مثلاََ 2000 نمازیں قضا ادا کرنی ہیں۔

(الف) کیا میں نے اس طرح سے جو 2 سال کی قضا نمازیں ادا کی ہیں ، وہ ادا ہوئی یا نہیں؟

 (ب) اگر 2 سال کی نمازیں ادا نہیں ہوئی تو کیا مجھے اب 5 سال کی قضا نمازیں ادا کرنی ہیں يا 7 سال کی؟

جواب

واضح رہے کہ قضاءِعمری کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے قضاء نمازوں کا اندازہ لگالے، پھر اس طرح نیت کر کے قضاء نمازیں پڑھے مثلاً جتنی فجر کی نمازیں مجھ سے قضا  ہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلًا جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے، لہٰذا اگر کئی نمازیں قضا ہوں اور ان کی تعداد اور اوقات معلوم نہ ہوں تو اندازا کرکے غالب گمان کے مطابق ایک تعداد مقرر کر لی جائے۔

 صورتِ مسئولہ میں  سائل نے  بلوغت کے بعد سے قضا شدہ نمازوں کا حساب لگا یا ہے تو اگر اس طرح پڑھی ہے کہ میں اپنی   مثلا فجر کی جتنی نماز یں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی پڑھی ہے دوسری پڑھی ہے ،یا آخری پڑھی ہے ، تو اس صورت میں سائل کی قضا نمازیں ادا کرنا درست  ہو گیا ، اگر اس طرح نہیں پڑھی یعنی اتنی تعین بھی نہیں کی  کہ کون سی نماز ہے پہلی ہے یا آخری ہے  تو اس صورت میں  قضا نمازوں کو  دوبارہ دہرا نا ضروری ہے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين "میں ہے : 

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.۔۔

(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين، لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".

(کتاب الصلوۃ ، فروع  فی قضاء الفوائت،2/ 76، سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408100106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں