بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

اینٹیں بنانے میں فلائی ایش کیمیکل استعمال کرنا اور اس کو فروخت کرنا


سوال

ہم تھلہ وغیرہ کا کام کرتے ہیں ،  گزشتہ د ن دنوں ہمیں ایک دارالافتاء کا ایک فتویٰ موصول ہوا، جس میں ایک کیمیکل کا ذکر ہے ، جس کو سیمنٹ کے ساتھ ملا کر بلاک وغیرہ بنائے  جاتے ہیں ،   جس سے بلاک میں مضبوطی ہوتی ہے، اس کو ”فلائی ایش“ کہتے ہیں جو درحقیقت پہاڑوں سے نکلنے والے کوئلہ کی راکھ  ہوتا ہے، ہم نے   اس پر اس  فیلڈ کے انجینئروں کے ذریعہ سےتحقیقات  کی ہیں،  جس کے مطابق اس سے مزید مضبوطی آتی ہے، کمزوری نہیں آتی،  اسی وجہ سے بڑی بڑی کمپنیاں اور ترقی یافتہ ممالک اپنے ملکوں میں تعمیراتی کام میں میں اسی چیز کا استعمال کرتے ہیں ۔

اُس دار الافتاء کے مطابق یہ چیز بلاک کو نقصان دیتی ہے ، حالاں کہ  ایسا ہر گز نہیں ہے، بلکہ ہماری تحقیقات کے مطابق یہ چیز بلاک وغیر کو مضبوطی  بخشتی ہے،  یعنی اگر ہم فلائی ایش کے بغیرکوئی بلاک وغیرہ بنائیں تو اس میں مثلاً اگر 73  فیصد  تک مضبوطی ہوگی تو اس کے  مقابلے میں اگر فلائی ایش کا استعمال کیا جائے تو اس کی مضبوطی  تقریبا 27 فیصد تک بڑھ کر 100 فیصد ہو جاتی ہے ،  کیا سیمنٹ کے ساتھ اس مذکورہ چیز فلائی ایش کو استعمال کر کے بلاک وغیرہ بنانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ    ”فلائی ایش“ ( Fly Ash)  سے  متعلق مختلف تحقیقات اور تھلہ کے کام کرنے والوں ، سائل  اور دیگر مستفتیوں سے  جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق    ”فلائی ایش“ ( Fly Ash) ایک  کیمائی فضلہ ہے   جو خاص طور پر توانائی کے پلانٹس میں استعمال ہونے والے کوئلے کے جلانے سے حاصل ہوتا ہے، چوں کہ اس میں سلیکون، ایلومینیم اور آئرن جیسے عناصر  پائے جاتے ہیں،  اس لیے یہ  کسی حد تک سیمنٹ کی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے، لہذا   بلاک بنانے میں   سیمنٹ کی مقدار کو کم کرکے اس کو سیمنٹ کے متبادل کے طور پر شامل کیا جاتا ہے،  اور اس کی قیمت سیمنٹ کے مقابلے میں  بہت کم ہے (مثلاً اگر سیمنٹ کی 50 کلو والی   بوری 1250 کی ہے تو فلائی ایش کی 50 کلو والے بوری 250 یا 300 تک مل جاتی ہے) ۔

اس کو ایک خاص مناسب مقدار میں شامل کرکے اس کی ظاہری طاقت اور مضبوطی کو سیمنٹ کے برابر پہنچایا جاتا ہے ، جس کو چیک کرنے کے لیے  Pounds per Square Inch (psi) ٹیسٹ کیا جاتا ہے، البتہ   psi ٹیسٹ حالیہ  پائیداری اور مضبوطی بتاتا ہے ، طویل المدتی پائیداری کتنی ہے، اس کی تفصیل اس سے معلوم نہیں ہوتی، نیز فلائی ایش،  سیمنٹ کا متبادل ضرور بن سکتا ہے، لیکن طاقت میں سمینٹ کے برابر نہیں ہے، بلکہ پائیداری میں سیمنٹ زیادہ مضبوط شمار کیا جاتا ہے، نیز سیمنٹ میں ریتی اور  بجری وغیرہ کو چپکانے کے صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے اور فوری عمل کرتی ہے، جب کہ فلائی ایش میں ابتداءً اس طرح کی طاقت نہیں  ہوتی،  تاہم یہ کہاجاتا ہے کہ  اگر بلاک میں سیمنٹ کی مقدار کم کرکے جو فلائی ایش شامل کیا جائے اگر وہ ایک خاص تناسب کے ساتھ ہو،اور اس کی صحیح نگہبانی کی گئی ہو  تو وہ مضبوطی میں  سیمنٹ کے بلاک کے متبادل بن جاتا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں   اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ بلاک بنانے  میں فلائی ایش  پاؤڈر  کا استعمال اور اس کو فروخت کرنے میں درج ذیل شرائط کی رعایت رکھنا ضروری ہوگا:

  1. بلاک میں سیمنٹ اور فلائی ایش  کی  مقدار کے تناسب میں   معیاری اصول کو ملحوظ رکھا جائے ، یعنی   اس  کی مقدار کو صحیح تناسب سے ڈالا جائے اور اس کی مناسب دیکھ بھال بھی ہو   تاکہ    یہ معیاری ہو اور اس سے کسی کو ضرر  (نقصان) نہ پہنچے۔
  2. فلائی ایش سے بنے بلاک کو سیمنٹ  کا بلاک کہہ کر فروخت نہ کیا جائے، اس لیے لوگ جب بلاک خریدتے ہیں تو ان کے ذہن میں سیمنٹ سے بنے بلاک ہی ہوتے ہیں اور    وہ زیادہ مضبوط  بھی ہوتے ہیں، اس لیے ان کو واضح طور پر بتلایا جائے کہ  یہ خالص سیمنٹ کے بلاک نہیں  بلکہ فلائی ایش ملاکر بنائے گئے  ہیں، نیز اس کی قیمت میں بھی فرق رکھا جائے تاکہ خریدار کو کسی قسم کا دھوکہ یا غلط فہمی نہ ہو۔
  3.  فلائی ایش سے بنے بلاک اور سیمنٹ سے  بنے بلاک کو الگ الگ نام دے دیا جائے  تاکہ خریدار سوچ وبچار کے بعد اپنی صواب دید پر جس کو مناسب سمجھے،  خریدے۔

باقی  بڑی بلڈنگ اور پلازے بنانے والے ٹھیکداروں اور بلڈرز کو  اس طرح کی اونچی عمارات اور پلازوں کی تعمیر میں فلائی ایش سے بنے بلاک  کو استعمال کرنے سے پہلے ماہرین سے  فنی طور پر تحقیق کرواکر قانونی منظوری لینی چاہیے ، تاکہ عمارت اور پلازے بننے کے بعد عام  لوگوں کو  نقصان  اور دھوکہ نہ ہو۔ اور جب تک  ماہرین کی تحقیق اور قانونی منظوری  نہیں ہوجاتی   ،ا س  طرح کے بلاک  خریدنے  اور بلڈنگ میں لگانے (استعمال کرنے)سے اجتناب کریں۔

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے :

"الأصل في الأشياء الإباحة حتى يقوم الدليل على تحريمها".

(‌‌‌‌تحريم ، ثانيا: تحريم الحلال ج:10 ص:211 ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

مجمع الانہر میں ہے :

"واعلم أن ‌الأصل ‌في ‌الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى {هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة: 29] وقال {كلوا مما في الأرض حلالا طيبا} [البقرة: 168] وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة ".

(كتاب الأشربة ، 2 ص:568، ط:دار إحياء التراث العربي)

فيض القدير شرح الجامع الصغیر میں ہے:

"( لا ضرر ) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئا من حقه ( ولا ضرار ) فعال بكسر أوله أي لا يجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقا والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل وقال الحرالي : الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه . وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعًا إلا لموجب خاص وقيد النفي بالشرع لأنه بحكم القدر الإلهي لاينبغي وأخذ منه الشافعية أن للجار منع جاره من وضع جذعه على جداره وإن احتاج وخالف أحمد تمسكا بخبر لا يمنع أحد جاره أن يضع خشبته على جداره ومنعه الشافعية بأن فيه جابر الجعفي ضعفوه وبفرض صحته [ ص 432 ] فقد قال ابن جرير : هو وإن كان ظاهره الأمر لكن معناه الإباحة والإطلاق بدليل هذا الخبر وخبر إن دماءكم وأموالكم عليكم حرام ."

 (باب حرف " لا "، رقم الحديث:9899، ج:6، ص:431، ط:داراحياء التراث العربى)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وأما‌‌ التدليس بكتمان الحقيقة، وهو الصورة المشهورة في الفقه باسم (التدليس): فهو إخفاء عيب في أحد العوضين، كأن يكتم البائع عيبا في المبيع، كتصدع في جدران الدار وطلائها بالدهان أو الجص، وكسر في محرك السيارة، ومرض في الدابة المبيعة، أو يكتم المشتري عيبا في النقود ككون الورقة النقدية باطلة التعامل، أو زائلة الرقم النقدي المسجل عليها، أو ذهب أكثر من خمسها.

وحكم هذا النوع: أنه حرام شرعا باتفاق الفقهاء، لقول النبي: «المسلم أخو المسلم، لا يحل لمسلم باع من أخيه بيعا، وفيه عيب، إلا بينه له» وقوله عليه السلام: «‌من ‌غشنا فليس منا."

(‌‌القسم الثاني: النظريات الفقهية،4/ 3071،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101819

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں