بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کالے بالوں پر مختلف کلر لگانا


سوال

ایسے مرد اور عورتیں جن کے بال سیاہ ہیں،  سفید نہیں ہوئے، کیا وہ اپنے بالوں کو کسی اور  رنگ سے رنگ  سکتے  ہیں؟اس کے  لیے عمومًا دو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں:

1)  کالے بالوں کو بلیچ لگا کر ان کا قدرتی کالا رنگ ختم کر دیا جاتا ہے تو وہ بال سفید ہو جاتے ہیں، پھر ان کو جس رنگ میں چاہیں رنگ دیں۔ اس طرح سے رنگے ہوئے بال تقریبًا سال سوا سال تک نئے رنگ سے رنگے رہتے ہیں۔نئے بال جڑ کی جانب سے بڑھتے ہیں تو آہستہ آہستہ سوا سال کے بعد رنگا ہوا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔

2)  کالے بالوں کو بغیر سفید کیے ڈائریکٹ دوسرے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔اس طریقہ سے رنگ ایک سے ڈیڑھ ماہ تک برقرار رہتا ہے، پھر بال دوبارہ کالے ہو جاتے ہیں۔ کیا مذکورہ دونوں طریقے شریعت کی نگاہ میں درست ہیں یا نہیں؟ نیز فتوی سیاہ بالوں پر رنگ کرنے کے بارے میں مطلوب ہے۔

جواب

واضح رہے کہ بالوں پر خالص سیاہ رنگ لگانا ناجائز ہے، تاہم سیاہ رنگ کے علاوہ کوئی دوسرا  رنگ لگانا جائز ہے۔

پھر سوال  میں جو دو طریقے درج کیے گئے ہیں ان دونوں کا حکم یکساں ہے، اور دونوں طریقوں سے بالوں کا رنگنا جائز ہے، بشرط یہ کہ اس میں کوئی حرام اجزاء شامل نہ ہوں، اور بطورِ فیشن اور ریا ونمود نہ کیا جائے۔ لیکن عام طور پر سیاہ بالوں پر جو مختلف رنگ لگائے جاتے ہیں وہ غیر مسلموں کی نقالی کے طور پر اور فیشن کے طور پر لگائے جاتے ہیں؛ اس لیے اس  سے احتراز ضروری ہے۔

باقی بلیچ کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگر بلیچ نیل پالش کی طرح تہہ بنانے والی کریم وغیرہ کا لیپ ہے، جس کی تہہ بالوں میں جم جاتی ہے اوراس کو دھونے کے بعد بھی اس کی تہہ نہیں ہٹتی تو ایسا بلیچ کرنا وضو کے دوران پانی کو بالوں تک پہنچانے سے مانع ہوتا ہے؛  لہذا مذکورہ بلیچ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے وضو اور غسل درست نہیں ہوگا۔ البتہ اگر بلیچ اس طرح ہے کہ دھونے سے اس کی تہہ ہٹ جاتی ہے، صرف اس کا رنگ رہ جاتا ہے، تو بالوں پر ایسا بلیچ لگانا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی ناپاک چیز شامل نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(اختضب لأجل التزين للنساء والجواري جاز) في الأصح ويكره بالسواد وقيل: لا و مر في الخطر.

(قوله: جاز في الأصح) وهو مروي عن أبي يوسف فقد قال: يعجبني أن تتزين لي امرأتي كما يعجبها أن أتزين لها والأصح أنه لا بأس به في الحرب وغيره واختلفت الرواية في أن النبي صلى الله عليه وسلم فعله في عمره والأصح لا وفصل في المحيط بين الخضاب بالسواد قال عامة المشايخ: إنه مكروه وبعضهم جوزه مروي عن أبي يوسف، أما بالحمرة فهو سنة الرجال وسيما المسلمين اهـ منح ملخصًا وفي شرح المشارق للأكمل: و المختار أنه صلى الله عليه وسلم خضب في وقت، وتركه في معظم الأوقات، ومذهبنا أن الصبغ بالحناء والوسمة حسن كما في الخانية قال النووي: ومذهبنا استحباب خضاب الشيب للرجل والمرأة بصفرة أو حمرة وتحريم خضابه بالسواد على الأصح لقوله عليه الصلاة والسلام: «غيروا هذا الشيب واجتنبوا السواد» اهـ قال الحموي وهذا في حق غير الغزاة ولا يحرم في حقهما للإرهاب ولعله محمل من فعل ذلك من الصحابة ."

(كتاب الخنثى، مسائل شتى، ج:6، ص:756، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و لايمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه به يفتى (ودرن ووسخ) عطف تفسير وكذا دهن ودسومة (وتراب) وطين ولو (في ظفر مطلقًا) أي قرويًّا أو مدنيًّا في الأصح، بخلاف نحو عجين.

(قوله: ونيم إلخ) ظاهر الصحاح والقاموس أن الونيم مختص بالذباب نوح أفندي، وهذا بالنظر إلى اللغة، وإلا فالمراد هنا ما يشمل البرغوث؛ لأنه أولى بالحكم.

(قوله: لم يصل الماء تحته) لأن الاحتراز عنه غير ممكن حلية.

(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللا بالضرورة. قال في شرحها ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن اهـ لكن يرد عليه أن الواجب الغسل وهو إسالة الماء مع التقاطر كما مر في أركان الوضوء. والظاهر أن هذه الأشياء تمنع الإسالة فالأظهر التعليل بالضرورة، ولكن قد يقال أيضا إن الضرورة في درن الأنف أشد منها في الحناء والطين لندورهما بالنسبة إليه مع أنه تقدم أنه يجب غسل ما تحته فينبغي عدم الوجوب فيه أيضا تأمل."

(كتاب الطهارة، فرض الغسل، ج:1، ص:151، ط:ايج ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201194

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں