بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بضاعت کی رقم ذاتی استعمال میں خرچ ہوجانے کا حکم


سوال

میں پیشے کے اعتبار سے درزی ہوں اور میری اپنی دوکان ہے، ایک شخص نے مجھے کپڑا خریدنے کے لیے ایک لاکھ روپے دیے تھے، اس رقم سے میں نے کچھ کپڑے خریدے اور بیچ کر سلائی کرتا ہوں، سلائی کی مد میں حاصل ہونے والی رقم خود اٹھالیتا ہوں اور کپڑا بیچنے سے حاصل ہونے والے نفع کو اکٹھا کر کے ہر مہینے اس شخص کو تقریبًا تین ہزار (3000) روپے دیتا ہوں، بد قسمتی سے اپنے بچے کی شادی اور دیگر تقریبات میں میں نے اس رقم میں سے پچاس، ساٹھ ہزار روپے خرچ کردیے، میرا سوال یہ ہے کہ میں نے رقم کے مالک کی اجازت کے بغیر جو پچاس، ساٹھ ہزار روپے خرچ کردیے ہیں کیا میں اس کا کوئی ہرجانہ بھر کر اس گناہ سے بری ہوسکتا ہوں؟ کیا میں ہرجانہ کی رقم اور جو رقم میں نے بیٹے کی شادی میں استعمال کی تھی وہ بھی ملاکر ساری رقم سے کپڑے خرید کر پھر سے اپنا کام (درزی والا) شروع کردوں تو میرا یہ گناہ ختم ہوجائے گا؟ یا کوئی اور شرعی فیصلہ میرے لیے صادر فرمادیں۔  

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  رقم آپ کے پاس امانت تھی، اس لیے آپ کا اس رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کرنا جائز نہیں تھا، اس رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کرنے کی وجہ سے آپ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور آپ خرچ کی ہوئی رقم مالک کو لوٹانے کے ضامن ہیں، لہٰذا آپ کو چاہیے کہ مذکورہ شخص کو یہ بات بتادیں کہ مجھ سے آپ  کی رقم اپنے ذاتی استعمال میں خرچ ہوگئی تھی اور  اس بات پر اس سے معذرت کر کے معافی  مانگ لیں اور خرچ کی ہوئی رقم اس کو واپس لوٹادیں، پھر اگر وہ آپ کی معذرت  قبول کر لے اور رقم آپ کو واپس دے کر آپ کے ساتھ حسبِ سابق معاہدہ کر لے تو آپ وہ رقم لے کر اس سے دوبارہ اپنا کام شروع کرسکتے ہیں، اس خیانت کی تلافی کے لیے ہرجانے کی رقم بھرنا لازم نہیں، صرف رقم کے مالک سے خیانت کے گناہ کو معاف کروانا ضروری ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 647):

"(ودفع المال إلى آخر مع شرط الربح) كله (للمالك بضاعة) فيكون وكيلا متبرعا (ومع شرطه للعامل قرض) لقلة ضرره".

درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 310):

"(كتاب المضاربة) ........ (هي) ........ شرعا (عقد شركة في الربح بمال من رجل وعمل من آخر وركنها الإيجاب) ........ (والقبول) ...... (وحكمها أنواع) الأول أنها (إيداع أولا) لأنه قبض المال بإذن مالكه لا على وجه المبادلة والوثيقة بخلاف المقبوض على سوم الشراء لأنه قبضه بدلا وبخلاف الرهن لأنه قبضه وثيقة (وتوكيل عند عمله) لأنه يتصرف فيه له بأمره حتى يرجع بما لحقه من العهدة على رب المال (وشركة إن ربح) لأنه يحصل بالمال والعمل فيشتركان فيه (وغصب إن خالف) لتعديه على مال غيره فيكون ضامنا (ولو) وصلية (أجاز بعده) أي المضارب إذا اشترى ما نهي عنه ثم باعه وتصرف فيه ثم أجاز رب المال لم يجز وكذلك المستبضع ............ (وأما دفع المال إلى آخر وشرط الربح للمالك فبضاعة و) شرطه (للعامل فقرض)".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں