سوال یہ ہے کہ میرے ایک ساتھی نے مجھے ایک کتاب فروخت کی جو اس نے تقریباً 400 یا500 میں خریدی تھی، اور مجھے کہا کہ میں نے 600 میں خریدی ہے، اور پھر کہا کہ 100 روپے نفع کے ساتھ آپ کو 700 میں فروخت کروں گا، تو میں نے اس سے کتاب لے لی، بعد میں مجھے پتا چلا کہ اس نے مجھے دھوکہ دیا ہے اور جھوٹ بولاہے، 100 روپے زیادہ لیے ہیں، تو میں نے پھر اس سے کہا کہ میرے نمبر پر 100 روپے کا لوڈ کردو پھرمیں بعد میں 100 روپے واپس دے دوں گا، اور اس نے لوڈ کردیا، اور اس طرح وہ 100 روپے میں نے لے لیے، اب میں اس کو نہیں دینا چاہتا، اور وہ کہہ رہا ہے کہ تم نے کہا تھا واپس دوں گا اس لئے واپس دو، اور میں نے کہا کہ تو نے دھوکہ میں 100روپے لیے تھے تو میں نے بھی لے لیے، اب میرا سوال یہ ہے کہ یہ پیسے میرے لیے اس طرح سے لینا اور استعمال کرنا جائز ہے ؟ یا میں نے واپس دینے ہوں گے اس ساتھی کو؟
صورتِ مسئولہ میں جب سائل کو اس کے دوست نے دھوکہ دے کر سستی کتاب مہنگی قیمت پربیچی، اور بعد میں سائل کو اس کی دھوکہ دہی کا پتا چلا،اور وہی رقم سائل نے دوبارہ دھوکہ سے وصول کی ہے، تو یہ رقم سائل کے لیےاستعمال کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ سائل پر لازم ہے کہ وہ مذکورہ رقم اپنے ساتھی کو دوبارہ وعدہ کے مطابق واپس کر دے، البتہ سائل کو یہ اختیار ہوگا کہ اگر اس نے کتاب میں کوئی خرابی وغیر ہ نہیں کی ہے اور کتاب سالم ہے تو وہ کتاب واپس اپنے ساتھی کو دےدے اور اپنے پورے پیسے اس سے لے لے،یامذکورہ کتاب اسی قیمت میں قبول کرےیعنی صرف دھوکہ دہی والی رقم (100 روپے) اسے لینے کا اختیار نہیں ہے، اور اگر سائل نے کتاب میں کوئی خرابی وغیرہ کی ہے تو پھر سائل کے لیے نہ پیسے لینے کا اختیار ہوگا اور نہ ہی کتاب واپس کرنے کا، بلکہ اس کو اسی رقم میں قبول کرنا ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(فإن) (ظهر خيانته في مرابحة بإقراره أو برهان) على ذلك (أو بنكوله) عن اليمين (أخذه) المشتري (بكل ثمنه أو رده) لفوات الرضا (وله الحط) قدر الخيانة (في التولية) لتحقيق التولية.(ولو هلك المبيع) أو استهلكه في المرابحة (قبل رده أو حدث به ما يمنع منه) من الرد (لزمه بجميع الثمن) المسمى (وسقط خياره) ...
(قوله: لزمه جميع الثمن) في الروايات الظاهرة؛ لأنه مجرد خيار لا يقابله شيء من الثمن، كخيار الرؤية والشرط، وفيهما يلزمه تمام الثمن قبل الفسخ، فكذا هنا وهو المشهور من قول محمد، بخلاف خيار العيب؛ لأن المستحق فيه جزء فائت يطالب به، فيسقط ما يقابله إذا عجز عن تسليمه، وتمامه في الفتح."
(حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، (5/ 137)، ط: سعيد)
درر الحکام میں ہے:
"إذا ظهر في المرابحة خيانة البائع فالمشتري مخير إن شاء ترك المبيع؛ لأن رضاء المشتري قد زال وإن شاء قبله بجميع الثمن المسمى ويقال لهذا الخيار " خيار الخيانة ".
الخيانة: تكون أولا في مقدار رأس المال كأن يضم البائع على رأس المال مصرفا لا يجوز ضمه عليه، أو أن يبين مثلا مالا كلفه تسعة ريالات فيبيعه مرابحة باثني عشر ريالا ثم يتحقق بعد ذلك إما بالإقرار، أو بالبينة، أو بالنكول عن اليمين أن ذلك المال كلفه ثمانية ريالات فقط؛ فللمشتري إن شاء ترك المبيع وإن شاء قبله بكل الثمن المسمى."
(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، كتاب البيوع، المبحث السادس في بيان خيار الخيانة، (1/ 378)، ط: دار الجيل)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإن خان في المرابحة فهو بالخيار إن شاء أخذ بكل الثمن وإن شاء ترك وإن خان في التولية حطها من الثمن وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى فلو هلك المبيع قبل أن يرده أو حدث به ما يمنع الفسخ عند ظهور الخيانة لزمه جميع الثمن المسمى وسقط خياره عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو المشهور من قول محمد - رحمه الله تعالى - كذا في الكافي."
(الفتاوى العالمكيرية، كتاب البيوع، الباب الرابع عشر في المرابحة والتولية والوضيعة، (3/ 163)، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102552
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن