بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیویوں میں سے کوئی ایک اپنی باری چھوڑ دے تو اس کی باری باقی سب بیویوں کے لیے ہوگی


سوال

میری تین بیویاں ہیں ، ایک کو میں نے اسکے والدین کے ساتھ اسلام آباد میں رکھا ہوا ہے ، اور دو بیویاں میرے ساتھ کراچی میں ہوتی ہیں ، جتنا وقت میں ان دونوں کو دیتا ہوں اسکا آدھا اسلام آباد میں جو بیوی ہے اسکو دیتا ہوں ، سوال میرا یہ ہے کہ اگر میری ایک بیوی جو کراچی میں ہے اپنی باری چھوڑ کر چلی جاتی ہے ، اور یہ متعین نہیں کرتی کہ وہ کس کو دینی ہے ، تو کیا وہ ساری راتیں جس میں وہ نہیں ہے میں اس بیوی کو دے سکتا ہوں جو دوسری میرے ساتھ کراچی میں ہے ، اور کیا ان راتوں کو ایک کے بدلہ ایک جو اسلام آباد میں ہے اسکو بھی دینی پڑےگی ، یا وہ سب راتیں میں اسی کو دے سکتا ہوں جو کراچی میں ہے چاہیۓ وہ جتانا بھی عرصہ ہو ، اور کیا جو اسلام آباد میں بیوی ہے اسکو دینے کی ان راتوں کے بدلہ کوئی  رات ضرورت نہیں  ہے ۔

ایک اور بات یہ کہ جو بیوی گئی ہے وہ اپنی مرضی سے گئی ہے یہ کہہ کر کے اسے باریاں نہیں  چاہیۓ ، پلیز آپ اس مسئلہ کا کوئی  حل بتا دیں ، کیونکہ جو بیوی اسلام آباد میں رہتی ہے وہ عالمہ ہے اور وہ یہ کہتی ہے کہ جب وہ ایک بیوی چلی گئی ہے تو اب جتنے دن دوسری کو دو گے اتنے میرے بھی بنیں گے کیوں کو وہ تو خود اپنی مرضی سے باریاں چھوڑ کر گئی ہے ، اب جتنی راتیں اس دوسری کو دوگے اتنی مجھے بھی دو گے کیونکہ دو کا ہی اب حساب رہ جاتا ہے آپ پلیز اس بارے میں بتادیں ۔

جواب

واضح رہے کہ دو یا دو سے زیادہ بیویوں کے درمیان رات گزارنے میں اور خرچہ ونان نفقہ اور لباس میں   برابری کا معاملہ کرنا شوہر پر واجب ہے،  پہلی اور دوسری بیوی حقوق میں برابر ہیں، اور مساوات شب باشی (یعنی صرف رات گزارنے) میں واجب ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی جو بیوی اپنی باری بغیر کسی کے لیے متعین کئے چلی گئی تو اس بیوی کی باری دوسری دونوں بیویوں کے لیے ہو گی سائل اپنی طرف سے کسی ایک کے لیے اس کی باری متعین نہیں کرسکتاہےبلکہ جتنا کراچی میں رہنے والی بیوی کو وقت دے گا اتنا ہی وقت  دوسری بیوی جو اسلام آباد میں رہتی ہے اس کو دینا سائل پر لازم ہے، باقی اگر کوئی بیوی اپنا حق چھوڑ دے معاف کردے تو اسے معافی کا حق حاصل ہے۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن عائشة: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقسم بين نسائه فيعدل ويقول: «اللهم هذا قسمي فيما أملك فلاتلمني فيما تملك ولاأملك». رواه الترمذي وأبوداود."

  (باب القسم، الفصل الثاني، ص: 279، ط: قديمي)

دوسری حدیث میں ہے:

"وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كانت عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط». رواه الترمذي وأبوداود."

  (باب القسم، الفصل الثاني، ص: 279، ط: قديمي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو وهبت إحداهما قسمها لصاحبتها أو رضيت بترك قسمها؛ جاز؛ لأنه حق ثبت لها، فلها أن تستوفي، ولها أن تترك، وقد روي أن سودة بنت زمعة - رضي الله عنها - لما كبرت، وخشيت أن يطلقها رسول الله - صلى الله عليه وسلم - جعلت يومها لعائشة - رضي الله عنها -."

(کتاب النکاح،فصل فی وجوب العدل بین النساء،ج:2،ص:333، ط: دارالکتب العلمیۃ) 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر (أن يعدل) أي أن لايجور  (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.  وقدره الطحاوي بيوم وليلة من كل أربع لحرة، وسبع لأمة، ولو تضررت من كثرة لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها، نهر بحثًا.

قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي والحق أنه على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة."

(باب القسم ،ج:3،ص:201، ط: سعيد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں