بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی تین ماہ سے غائب ہو تو شوہر کیا کرے؟


سوال

میرے دوست کی بیوی گھر چھوڑ کر 3 ماہ سے گئی ہوئی ہے اور اپنے رشتہ داروں کے گھر نامعلوم جگہ پر رہ رہی ہے۔ گھر بھی شوہر کی اجازت کے بغیر چھوڑا ہے۔ اور  اس عرصے میں کوئی رابطہ بھی نہیں کیا ہے۔ کیا شوہر کی اجازت کے بغیر اس طرح جانا جائز ہے؟ کتنا عرصہ اس طرح شوہر کی اجازت کے بغیر باہر رہ سکتی ہے؟ نافرمان بیوی کے لیے قرآن و حدیث میں کیا وعیدیں ہیں جو بغیر اجازت کے گھر چھوڑ کر چلی جائے؟ شوہر کو شریعت اس صورت میں کیا اختیار دیتی ہے؟ کیا وہ دوسری شادی کر سکتا ہے؟

جواب

بیوی کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، چہ جائے  کہ شوہر کی اجازت کے بغیر  نامعلوم جگہ پر چلی جائے،  ایک عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ : شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : شوہر کا حق  اس پر یہ ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نہ نکلے، اگر وہ ایسا کرے گی تو آسمان کے فرشتہ اور رحمت وعذاب کے فرشتہ  اس پر لعنت بھیجیں گے؛ یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔

بہتر یہ ہے کہ اس سے رابطہ کرنے کی مزید  کوشش کی جائے اور معاملات سلجھائے جائیں، تاہم اگر وہ اصلاح کے لیے تیار نہیں ہے اور مذکورہ عمل کی وجہ سے شوہر طلاق دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔

باقی وہ اگر اس بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا، اور اس کے نکاح میں  ہوتے ہوئے دوسری  شادی کرنا چاہے تو شرعاً  کر سکتا ہے، تاہم دوسری شادی کی اجازت تب ہے جب (پہلی بیوی کے لوٹنے کی صورت میں) سائل دونوں بیویوں کے درمیان نان و نفقہ، لباس اور شب باشی میں برابری پر قادر ہو۔ اگر سائل ان تینوں چیزوں پر قادر نہ ہو  اور پہلی بیوی واپس نہ آئے تو سائل پہلی بیوی کو طلاق دے اس کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے۔

الترغيب والترهيب للمنذري (3/ 37):
"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعاً إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها، ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم ولا أتزوج أبداً". رواه الطبراني".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 145):
"فلاتخرج إلا لحق لها أو عليها  أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلةً أو غاسلةً لا فيما عدا ذلك.

(قوله: فيما عدا ذلك) عبارة الفتح: وأما عدا ذلك من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة لا يأذن لها ولاتخرج ..." إلخ 

فتاوی شامی میں ہے :

"وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر". (۳/۲۲۸، سعید)

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب". (۳/۲۰۲، سعید) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110200210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں