بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی طلاق کے مطالبہ پر مصر ہو اور رشتہ نبھانے کے لیے تیار نہ ہو تو شوہر کیا کرے؟


سوال

 زید نے اپنی چچا کی لڑکی کو پیغام نکاح بھیجا تو اس لڑکی نے رشتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر کچھ وقت کے بعد اس نے دوسری جگہ رشتہ کرنے کا سوچا وہاں رشتہ مانگنے جارہے تھے کہ راستے میں ان کے پاس ایک آدمی پیغام لے کر آیا کہ آپ لوگ وہاں رشتہ مانگنے مت جاؤ، وہ لڑکی رضامند ہے، آپ لوگ اس سے رشتہ کرلو، اسی نے یہ پیغام دے کر مجھے بھیجا ہے۔ یہ لوگ وہیں راستے سے ہی واپس ہوگئے اور اسی لڑکی سے منگنی کر لی گئی۔ کچھ مدت کے بعد نکاح ہوگیا اور اب نکاح کو ایک سال مکمل ہوچکا اور دوسرا سال چل رہا ہے، لیکن ہمبستری ایک دفعہ بھی نہیں ہوئی ہے۔ نکاح کے بعد ابتدائی ہفتے میں شوہر ہمبستری نہیں کرسکتا تھا۔ بقول اس کے کہ ان پر جادو کیا گیا تھا(ہماری زبان بلوچی میں جسے کہا جاتا ہے کہ یہ بندھا ہوا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات آلہ تناسل بالکل نہیں اٹھتا ہے اور اگر اٹھے تو ہمبستری کرنے میں شدید تکلیف ہوتی ہے اور انزال بالکل نہیں ہوتا ہے ایسا مسئلہ یہاں بہت سے لوگوں کو پیش آتا ہے پھر علاج معالجہ و دم وغیرہ سے بندہ ٹھیک ہوجاتا ہے)۔الغرض بیوی نے کبھی بھی اس کو قدرت علی الوطی نہیں دی ابتدائی ہفتے میں شوہر ہمبستری نہیں کرسکتا تھا اور یہ مسئلہ اسے ایک مہینے تک درپیش رہا (اس وقت بھی بیوی نے نہیں چھوڑا اور اس کے بعد بھی ابھی تک نہیں چھوڑاہے) ایک مہینے تک علاج معالجہ کروا کر وہ ٹھیک ہوگیا ،مگر لڑکی اب بھی بضد تھی کہ مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا ہے۔ اس لئے وہ اسےاپنے اوپر قدرت دینے سے انکاری تھی اور اب تقریبا ایک سال مکمل ہوچکا ہے، مگر تا حال بیوی اس کو نہیں چھوڑتی ہے۔ شوہر نے ایک دفعہ بھی صحبت نہیں کی ہے بوجہ بیوی کے نہ چھوڑنے کے (واضح رہے کہ شوہر صرف ابتدائی مہینے تک ہمبستری نہیں کرسکتا تھا مگر ایک مہینے تک بالکل تندرست ہوگیا )اور نہ اس نے اسے قدرت دی۔ لڑکی کا کہنا ہے کہ مجھے یہ شوہر پسند نہیں ہے، اس لئے میں اس کو ہمبستری کرنے نہیں دیتی ہوں اور کبھی دوں گی بھی نہیں۔ بس مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا ہے۔کسی بھی صورت میں بس مجھے طلاق دے کر آزاد کر دے، حالانکہ نکاح رضامندی سے ہوا تھا۔ اب شوہر اس صورتحال میں کیا کرے؟ اس وقت شوہر کسی دوسرے شہر میں ملازمت کرتا ہے اور گھر بھی نہیں آتا ہے اس ڈر کی وجہ سے کہ بیوی اسے تنگ کرتی ہے اور کہتی ہے مجھے طلاق دے کر آزاد کر دے، مگر شوہر ایسا کرنا نہیں چاہتا۔ اس لڑکی کو اس عرصے میں شوہر نے سمجھایا، بھائیوں نے سمجھایا، والدین نے، شوہر کے والدین نے مگر سب بے سود یعنی کسی بھی طرح عورت اس شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ شوہر کیا کرے اسے طلاق دے کر آزاد کر دے؟ یا کوئی اور حکم ہے شریعت کی روشنی میں؟ جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب  قریبی رشتہ داروں کے بیوی کو سمجھانے کے باجود وہ رشتہ نبھانے پر راضی نہیں ہے اور طلاق کے مطالبہ پر مصر ہے ، سائل اور اس کی بیوی ایسے حالات میں اللہ کی حدود پر قائم رہنے پر قادر نہیں ہیں اور ایک دوسرے کے حقوق اداکرنا ممکن نہیں ہے تو سائل اپنی بیوی کو پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے دے۔ سائل کی بیوی سائل کے گھر میں مکمل تین ماہواریاں عدت گزارے۔ اس کے بعد سائل اور اس کی بیوی کا نکاح ختم ہوجائے گا اور پھر وہ جہاں رشتہ کرنا چاہتی ہے کرسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وإيقاعه مباح) عند العامة لإطلاق الآيات أكمل(وقيل) قائله الكمال (الأصح حظره) (أي منعه) (إلا لحاجة) كريبة وكبروالمذهب الأول كما في البحر

وعكسا) أي إنها غير مانعة لدخول الفسوخ فيها وغير جامعة لخروج الرجعي (قوله كريبة) هي الظن والشك: أي ظن الفاحشة (قوله والمذهب الأول) لإطلاق قوله تعالى {فطلقوهن لعدتهن} [الطلاق: 1] {لا جناح عليكم إن طلقتم النساء} [البقرة: 236].......ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث «أبغض الحلال إلى الله الطلاق."

(کتاب الطلاق، ج نمبر ۳ ، ص نمبر ۲۲۷، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں