بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی طلاق کا مطالبہ کرتی ہو تو کیا کیا جائے؟


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ میری بیوی مجھ سے بہت لڑتی ہے اور وہ طلاق لینا چاہتی ہے، اور وہ قرآن پاک کی قسم کھا کر کہتی ہے کہ وہ طلاق چاہتی ہے، تو میں اپنی بیوی کے ساتھ کیا کروں؟ میرے گھر کا برا حال ہے، اس نے مجھ سے پیسے مانگے، گھر کے کام پورے نہیں ہوتے اور میں مانتا ہوں، اسی لیے وہ روز لڑتی ہے اور میری جڑواں بیٹیاں ہیں، اگر میں طلاق دیتا ہوں تو میری بیٹی پریشان ہو جائے گی۔

جواب

سائل اور اس کی بیوی کے درمیان بہت لڑائی ہوتی ہے اور اس کی بیوی اس سے طلاق کا مطالبہ کررہی ہے، تو سب سے پہلے تو سائل اور اس کی بیوی کو چاہیے کہ آپ میں بیٹھ کر تسلی کے ساتھ ایک دوسرے کی بات کو سنیں، سمجھیں، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا عزم کریں اور حتی الامکان کسی طرح نباہ کی کوشش کریں، اس لیے کہ بقول سائل اس کی دوبیٹیاں ہیں، تو اپنی اولاد ہی کی خاطر لینے یا دینے سے گریز کیا جائے، اور اگر تمام تر کوششوں کے باوجود آپس کی بات چیت سے مسئلہ حل نہ ہو تو خاندان کے بڑوں، علاقے کے معزز افراد  کو درمیان میں ڈال کر مسئلہ حل کرانے کی کوشش کی جائے، اس کے بعد بھی اگر دونوں کے درمیان نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ رہے تو سائل کی  شرعی و اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے كہ معاملہ لٹكا كر بيوی كو اذيت میں ركھنے كے بجائے باعزت طريقہ پر ایک طلاق دےدے  اور اس كا مہر وغيرہ (اگر واجب الادا ہو تو وہ) بھی ادا كرے،  اس صورت میں عدت میں رجوع کرنا ممکن ہوگا اور اگر سائل اس كےلیے آمادہ نہ ہو  تو اس کے لیے اپنی بیوی سے خلع کا معاملہ کرنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن یاد رہے کہ خلع  میاں بیوی کے درمیان ایک مالی معاملہ ہے جس میں فریقین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے، اور خلع کے ذریعے اس کی بیوی پر ایک طلاقِ بائنہ واقع ہوجائے گی، اور اس کے بعد مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ 

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ ."[النساء: 19]

ترجمہ: ’’اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے  کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔‘‘(بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".

(كتاب النكاح، باب عشرة النساء، الفصل الثاني، ج: 2، ص: 973، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ: ’’رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔‘‘

(مظاہر حق، ج: 3، ص: 370، ط:  دارالاشاعت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌إذا ‌تشاق ‌الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ج: 1، ص: 488، ط: دار الفكر بيروت)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال) هذا حكم الخلع عند جماهير الأئمة من السلف والخلف."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 4، ص: 211، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101994

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں