بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی طلاق کا دعویٰ اور شوہر انکار کرے تو طلاق کا حکم


سوال

لڑکی کا بیان:میری شادی جنوری 2024ء کو  ہوئی، میرا شوہر نشہ کرتا ہے، اور نشہ کرکے گھر آتا ہے، اور نشہ کی حالت میں مار پیٹ کرتا ہے،شادی کے کچھ عرصہ بعد مجھے میرے شوہر نے دو مرتبہ طلاق دی اور طلاق کے الفاظ یہ اد ا کیے تھے کہ”تو مجھ پر طلاق ہے“ ، اس کے بعد ہمارا تعلق قائم رہا، پھر کچھ عرصہ بعد دو مرتبہ طلاق دی اور  یہی الفاظ ادا کیے تھے کہ ”تومجھ پر طلاق ہے“ اور اب چند  دن پہلے میرے شوہر نے نشہ کی حالت میں دو دفعہ طلاق دی اور پھر تیسری طلاق صبح دی،میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ کسی مولوی سے پوچھ لو میرے دل میں شک ہے،لیکن انہوں نے کسی سے نہیں پوچھا اور میں اپنے والد کے گھرآگئی اور اس بات پر میں قسم کھانے کو بھی تیار ہوں۔

شوہر کا بیان: میری اہلیہ نے ایک دفعہ اپنے کزن کا ذکر کیا تو میں اس کو منع کیا،ایک دفعہ وہ رات میں موبائل پر کسی سے بات کررہی  تھی، اور  میرا موبائل استعمال کررہی تھی،جب میں اٹھا تو اس نے سب کچھ ڈیلٹ کردیا تو میں اس کو کہاکہ اگر تمہارا کسی اور کے ساتھ  تعلق ہو تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا،  میں نے طلاق نہیں دی،البتہ  ہمارے درمیان لڑائی جھگڑے ہوا کرتے تھے ،میں نے صرف دھمکی دی ہے۔

جواب

اگر بیوی دعویٰ کرے کہ شوہر نےا سےتين طلاقیں دے دی ہیں اور شوہر انکاری ہے،تو بیوی پر لازم ہے کہ اپنے اس دعویٰ پر شرعی(دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں)گواہ پیش کرے،اگر بیوی نے گواہ پیش کردئیے،تو  بیوی پر طلاق واقع ہونے کا حکم لگایا جائے گااوراگر بیوی کے پاس شرعی گواہ نہ ہوں،توایسی صورت میں شوہر سے قسم لی جائے گی،اگر شوہر نے قسم کھالی،تو ان دونوں کا نکاح برقرار رہے گا،اگر شوہر قسم کھانے سے انکار کردے،تو بیوی  کا دعویٰ ثابت ہوجائے گا،اگر شوہر کی قسم پر بیوی اعتماد  نہیں کرتی اور بیوی کو یقین ہو کہ شوہر نے اسے تین طلاقیں دی ہیں اور خوداس نے اپنے  کانوں سے طلاق کے الفاظ سنے ہوں،تو بیوی پر لازم ہے کہ شوہر کو اپنے اوپر قدرت نہ دے،کسی بھی طریقے سے شوہر سے طلاق  لےلے یا باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرکے اپنے آپ کو شوہر کے نکاح سے آزاد کرالے،چوں کہ یہ معاملہ باہم نہیں ہوسکتا،بلکہ اس کے لیے کسی اہل علم فیصل کی ضرورت ہے،اس لیے دونوں کو چاہیے کہ اگر ایسی صورتِ حال پیش آئے،تو کسی دارالإفتاء میں حاضر ہوکر مفتی صاحب کو فیصل مقرر کرکے مسئلے کا فیصلہ کروالیں اور جب تک فیصلہ نہ کروالیا جائے،دونوں ایک  دوسرے سے دور رہیں۔

قرآن پاک میں  ہے:

"وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن’ رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ."(البقرۃ،282)

ترجمہ:" اوردو شخصوں  کو اپنے مردوں میں سے گواہ (بھی) کرلیا کروپھر اگر وہ دو گواہ مرد ( میسر)نہ ہوں تو  ایک مرد اور دو عورتیں (گواہ بنالی جاویں)۔" (بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البينة على ‌المدعي واليمين على ‌المدعى عليه . رواه الترمذي."

ترجمہ: " رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: گواہ پیش کرنا مدعی(دعوی کرنے والے)پر اور قسم کھانا مدعی علیہ (جس پر دعوی کیا گیا ہے)پر ہے۔"

(كتاب الإمارة والقضاء، ‌‌باب الأقضية والشهادات، الفصل الثاني، 1112/2، ط: المكتب الإسلامي)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"البينة على ‌المدعي واليمين على من أنكر أي: جميع البينات في جانب ‌المدعي، وجميع الأيمان في جانب المنكر."

(كتاب الإمارة والقضاء، ‌‌باب الأقضية والشهادات، 2443، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"والمرأة كالقاضي ‌إذا سمعته أو أخبرها ‌عدل ‌لا ‌يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها ‌إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي ‌إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله."

(‌‌كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، 251/2، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101908

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں