بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی شوہر کے ساتھ کاروبار میں محنت کرے اور سرمایہ سارا شوہر کا ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر بیوی شوہر کے ساتھ تجارت میں کام کرے اور ان دونوں کی محنت سے بہت سا مال جمع ہو جائے، لیکن دونوں کے درمیان کوئی عقد نہ ہوا هو  اور کل سرمایہ شوہر کا ہو، بیوی کا کوئی سرمایہ نہ ہو تو ایسی صورت میں جو کچھ جمع ہوا ہے وہ کس کا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سرمایہ سارا شوہر کا ہے، بیوی نےکوئی سرمایہ نہیں لگایا ہے، صرف شوہر کے ساتھ کام کیا ہے اور دونوں کے درمیان کوئی عقد نہیں ہوا ہے تو ایسی صورت میں جتنا نفع ہوا ہے  وہ سب شوہر کا ہے اور اس کاروبار میں بیوی کی شرعی حیثیت معاون کی ہوگی۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"ثم ذكر خلافا في المرأة مع زوجها إذا اجتمع بعملهما أموال كثيرة، فقيل هي للزوج وتكون المرأة معينة له، إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها، وقيل بينهما نصفان."

(كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة، 325/4، ط: سعيد)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"ذكر شيخ الإسلام جلال الدين في أب وابن اكتسبا ولم يكن لهما مال فاجتمع لهما من الكسب أموال الكل للأب لأن الابن إذا كان في عياله فهو معين له ألا ترى أنه لو غرس شجرة فهي للأب وكذا الحكم في الزوجين اهـ."

(كتاب الشركة، 94/1، ط: دار المعرفة)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وكذا الحكم في الزوجين إذا لم يكن لهما شيء ثم اجتمع بسعيهما أموال كثيرة فهي للزوج وتكون ‌المرأة ‌معينة ‌له إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها، كذا في القنية."

(كتاب الشركة، الباب الرابع في شركة  الوجوه والأعمال، 329/2، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101802

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں