بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے فون پر جنسی بات کرنے کاحکم


سوال

میں اپنے منکوحہ سے فون پر  جنسی باتیں کرتا ہوں ،  اور اسے چھاتیوں کو  ٹچ کرنے اور نپلز کو مسلنے اور شرم گاہ کو چھونے اور ہاتھ سے رگڑنے کا کہتا ہوں، اگر اس سے میری منکوحہ کو لذت ملے تو کیا  اس پر غسل فرض ہوگا؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ اگر فون پر بیوی کےساتھ جنسی باتیں کرتیں ہوئےخود بخود انزال ہوجائے یامذی نکلےتو اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا، البتہ  انزال کی صورت میں غسل کرنا لازم ہوگا۔

نیز واضح رہے کہ  میاں بیوی کا فون پر جنسی باتوں   میں اگر تصاویر کا تبادلہ ہو یا ویڈیو کال کے ذریعے بات چیت ہو  تو چوں کہ یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہے، اس لیے یہ جائز نہیں ہے۔

اور اگر یہ عمل  اس حد تک ہو کہ دونوں میسج یا آڈیو پیغام کے ذریعے آپس کی باتیں کرتے ہوں تو  تنہائی میں (جب قریب کوئی شخص موجود نہ ہو) ایسی باتیں کرنے کی گنجائش تو ہے، لیکن  میاں بیوی کو فون پر جنسی تعلق کی باتیں فون کال پر کرنے سے بھی حتی الامکان اجتناب  کرنا چاہیے، اس لیے کہ  ٹیکنالوجی کے اس دور میں نجی کالز اور ذاتی میسجز  بھی ریکارڈ ہوتے ہیں، اور کمپنیوں کے کال سینٹرز  اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں بعض اوقات اخلاقی لحاظ سے کم زور انسان تعینات ہوتے ہیں، اس لیے پیش بندی کے طور پر  فون پر  جنسی باتیں کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.

بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم."

(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ٣٩٩/٢،ط: سعید)

فیہ ایضا:

"وهو تحقيق وجيه؛ لأنه يجوز له أن يلمس بجميع بدنه حتى بذكره جميع بدنها إلا ما تحت الإزار فكذا هي لها أن تلمس بجميع بدنها إلا ما تحت الإزار جميع بدنه حتى ذكره، وإلا فلو كان لمسها لذكره حراما لحرم عليها تمكينه من لمسه بذكره لما عدا ما تحت الإزار منها، وإذا حرم عليه مباشرة ما تحت إزارها حرم عليها تمكينه منها فيحرم عليها مباشرتها له بما تحت إزارها بالأولى."

(کتاب الطہارۃ، باب الحیض ٢٩٣/١،ط:  سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں