بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے جب نباہ نہ ہوسکے تو طلاق دینے کا طریقہ


سوال

میری بیوی میرے حقوق ادا نہیں کررہی ہے، اور میری نافرمانی کرتی ہے،ہر ممکن کوشش اور سمجھانے کے باوجود وہ میرے نظریے کے مطابق زندگی نہیں گزار رہی ہے، اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرتی ہے، جیسے میرے دو سالہ بیٹے کو لے کر میکے میں بیٹھ جانا، شوہر سے زیادہ باپ کے احکامات کو ماننا  وغیرہ، میں ان تمام باتوں کی وجہ سے انتہائی دل آزاری کا شکار ہوں، میری بیوی میرے والدین کے ساتھ بھی بہت بد اخلاقی کرتی ہے، اور ان سب میں اس کے والدین 100 فی صد شامل ہے، ماضی میں بہت بڑے بڑے معاملات ہوئے ، اور انہیں خبردار بھی کیا گیا، لیکن وہ سدھرنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی ، میرا بہت بڑا خاندان ہے، اور اللہ نے وسعت بھی دی ہے، معاشرتی اور اخلاقی طور پر میں نے ایسی عورت کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے ، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک حلال کاموں میں سب سے  زیادہ ناپسندیدہ بات طلاق دینا ہے، اس لیے حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ طلاق کی نوبت نہ آئے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل اور اس کی بیوی  دونوں کو چاہیے کہ افہام و تفہیم کے ذریعہ مسئلہ حل کرے،اگر معاملہ آپس میں بات چیت کے ذریعہ حل نہ ہو تو  اس معاملے میں گھر کے فہم اور بہتری پیدا کرنے والے بزرگوں کو چاہیے کہ وہ دونوں کو سمجھائیں  ،نیز  کامل ایمان والا مسلمان وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو اور اپنے اہل سے سب سے زیادہ مہربانی کرنے والا ہو۔

اور تاہم اگر کسی طرح بھی نباہ کی صورت نہیں بن رہی ہو، تو شوہرکو اختیار ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے ، بہتر طریقہ یہ ہے کہ سائل بیوی کو ایسے طہر میں  صرف ایک طلاق دے جس میں اس نے ہم بستری نہ کی ہو، ایک طلاق دینے کے بعد اگر بیوی بات مان لیتی ہے اور تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو    عدت کے دوران رجوع بھی کیا جاسکتا ہے ،اس کے بعد دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکیں گے،تاہم آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا،اگر عدت کے دوران رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے سے ہی نکاح ختم ہوجائے گا، البتہ  عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا  نکاح بھی ہوسکتا ہے، لیکن اگر سائل نے تین طلاقیں ایک ساتھ دیں تو یہ باعث گناہ ہے،لیکن تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی،اور آئندہ کے لیے دوبارہ نکاح کرنا درست نہ ہوگا۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾." [النساء: 19]

ترجمہ:" اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے  کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

مشکاة المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".

(باب عشرة النساء ،٢٨٢/٢، ط: قدیمي)

ترجمہ:" رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔"

وفیہ یضا : 

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".

( باب عشرة النساء،٢٨١/٢، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔"(مظاہر الحق )

وفیہ ایضا: 

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايفرك مؤمن مؤمنةً إن كره منها خلقاً رضي منها آخر. رواه مسلم".

(باب عشرة النساء،٢٨٠/٢،ط: قدیمي)

ترجمہ:" رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے،  اگر  اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی  خصلت وعادت ناپسندیدہ ہوگی  تو  کوئی دوسری خصلت وعادت پسندیدہ بھی ہوگی۔"(مظاہر الحق)

وفیہ ایضا:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي."

( باب عشرۃ النساء،٢٨١/٢، ط: قدیمی)

ترجمہ:"رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ  وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔"(مظاہر الحق )

وفیہ ایضا: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت."

(کتاب النکاح ،باب عشرۃ النساء ،٩٧١/٢ط:المکتب الاسلامی)

ترجمه:"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے (یعنی اپنے ایام طہارت میں )اور رمضان المبارک میں روزے رکھے اور خاوند کی فرمانبرداری کرے (یعنی جن باتوں میں اسے فرمانبرداری کرنے کا حکم ہے)تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو ۔"(مظاہر حق)

وفیہ ایضاً:

"وعن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة."

(کتاب النکاح ،باب عشرۃ النساء ،٩٧٢/٢،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا  جو عورت اس حال میں فوت ہو  کہ اس کا خاوند اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں جائے گی ۔"(مظاہر حق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن) بالنسبة إلى البعض الآخر."

(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ٢٣٠/٣، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة)."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة،٣٩٧/٣،  ط:سعید)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144504101417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں