بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ کہنے کا حکم


سوال

میرے بیٹے  نے غصہ کی حالت میں اپنی بیوی سے کہا ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘، تین دفعہ یہ الفاظ بولے، کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟جب کہ سسرال والے کہتے ہیں کہ طلاق واقع ہو چکی ہے، اور لڑکی اپنے والدین کے گھر چلی گئی ہے، اور لڑکا معافی مانگنے کو بھی تیار ہے۔

جواب

واضح رہے کہ غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق  بھی واقع ہوجاتی ہے، صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل کا بیان واقعتًا صحیح ہے  کہ  سائل  کے بیٹے نے اپنی  بیوی کو تین دفعہ یہ الفاظ کہے ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘  تو اس سے  اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، اور اس پر بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، اب نہ رجوع ہو سکتا ہے، اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے، اور مطلقہ اپنی عدت (پوری تین  ماہواریاں اگر حمل نہیں ہے، اگر حمل ہے تو بچے کی پیدائش تک) گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ   نکاح   کر سکتی ہے، البتہ اگر مطلقہ عدت گزارنے کے بعد کسی  دوسری جگہ   نکاح کرے، اور اس دوسرے  شوہر کے ساتھ  صحبت (جسمانی تعلق)  بھی  قائم ہوجائے اس کے بعد وہ اس کو طلاق دے یا اس کا  انتقال ہو جائے، تو  اس کی عدت گزارنے کے بعد مطلقہ کا سائل کے بیٹے کے ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔

رد المحتار میں ہے:

"قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه، والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول و لايريده، فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله،الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله.اهـ. ملخصا من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع الطلاق من غضب خلافا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر ‌في ‌المدهوش."

(کتاب الطلاق، مطلب فی طلاق المدہوش،ج:3، ص:244، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی عالمگیریۃ میں ہے:

"متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق."

(کتاب الطلاق، الباب الثانی، الفصل الاول فی الطلاق الصریح،ج:1، ص:356، ط:مصر)

بدائع  الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية ... سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:دار الکتب العلمیۃ)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"الصريح ‌يلحق ‌الصريح."

(کتاب الطلاق،باب الکنایات، ج:3، ص:306، ط:سعید)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط ... و لايلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اهـ وما في التحفة لا يخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحًا."

(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ج:3، ص:248، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں