بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رجب 1446ھ 18 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے میں نےتمہیں چھوڑدیا کہنے کاحکم


سوال

میری شادی کو 27 سال ہوگئے ہیں،میرے شوہر نے مجھے کہا کہ اگر تم نے میرےساتھ نہیں رہنا تو اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ ،لیکن میں اپنی ماں کے گھر نہیں گئی،اس کے بعد ابھی 25 تاریخ کو انہوں نے لڑائی کے دوران کہا کہ "میں نے تمہیں چھوڑدیا "،شوہر کا کہنا ہےکہ میں نے طلاق کی نیت سے نہیں کہا تھا اور میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھا،اب ہمارے لیے شرعی حکم  کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   اگر واقعۃً سائلہ کو شوہر نے   لڑائی کے دوران یہ الفا ظ بولے ہیں  کہ "    میں نے تمہیں چھوڑدیا"  تو شرعاً ان الفاظ سے  سائلہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے ،اگرچہ شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی،اس لیےکہ یہ الفاظ ہمارے عرف میں صریح ہے ،نیت کا محتاج نہیں، شوہر کو   عدت ( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہیں ہے ،اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) کے اندر رجوع  کا حق حاصل ہے،اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تو نکاح قائم رہے گا،ورنہ بعد از عدت نکاح ختم ہوجائے گا،پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب وقبول کے ساتھ تجدید نکاح کرنا ضروری ہوگا اوردونوں صورتوں میں یعنی رجوع اور تجدید نکاح دونوں صورتوں میں شوہر کو آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا،باقی رجوع کا بہتر طریقہ  یہ ہے کہ شوہر دو گواہوں کی موجودگی میں  زبان سے یوں کہے کہ’’  میں نے رجوع کیا ‘‘تو اس سے رجوع ہوجائےگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

" بخلاف فارسية ‌قوله ‌سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري.ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي.والحاصل أن المتأخرين خالفوا المتقدمين في وقوع البائن بالحرام بلا نية حتى لا يصدق إذا قال لم أنو لأجل العرف الحادث في زمان المتأخرين، فيتوقف الآن وقوع البائن به على وجود العرف كما في زمانهم. وأما إذا تعورف استعماله في مجرد الطلاق لا بقيد كونه بائنا يتعين وقوع الرجعي به كما في فارسية سرحتك."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات،299/3، ط: سعید)

 کتاب الأصل لمحمد بن الحسن میں ہے:

"‌ وإذا ‌طلق الرجل ‌امرأته واحدة يملك الرجعة، للعدة أو هي في الحيض أو بعد الجماع، فالطلاق واقع عليها، وهو يملك الرجعة ما لم تنقض عدتها، فإذا انقضت عدتها فهو خاطب من الخطاب."

( کتاب الطلاق، باب الرجعة، 396/4، ط: دار ابن حزم، بيروت)

فتح القدیر میں ہے:

"(والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي) وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة قال (أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة) وهذا عندنا......قوله ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة) إمساك على الوجه الذي كان أولا وهو الملك على وجه لا يزول بانقضاء العدة ولا ملك بعد العدة ليستدام."

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، 159/4، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100457

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں