میری اہلیہ گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے مجھ سے خلع مانگ رہی تھی، لیکن میں اسے راضی کرکے گھر لے آیا، جس کے بعد میری اہلیہ میرے ساتھ بیوی بن کر رہنے کے لیے راضی ہوگئی،لیکن پھر بعد میں کسی وجہ سے میں نے اسے میسج کیا کہ "میں آپ کو سنت کے مطابق ایک طلاق دے رہا ہوں اور جلد ہی آپ کو مہر دے دوں گا، عدت کے بعد آپ کسی اور سے نکاح کرسکتی ہیں"،لیکن پھر مجھے اپنی اس حرکت پر ندامت ہوئی، اور میں نے بیوی کو لکھ کر بھیجا کہ میں طلاق سے رجوع کرتا ہوں؛ تو اب میں کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک طلاق رجعی ہے اور اب ہم ساتھ رہ سکتے ہیں ،لیکن میری اہلیہ کہتی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خلع والی طلاق ہو، جس میں رجوع نہیں ہوسکتا اور ہمیں میاں بیوی بن کر رہنے میں کہیں گناہ نہ ہو! تو برائے کرم، آپ حضرات بتائیں کہ اب ہم دونوں کا میاں بیوی بن کر رہنا جائز ہے کہ نہیں؟ نیز یہ خلع والی طلاق ہے یا ایک طلاق رجعی؟ واضح رہے کہ میں نے خلع کی نیت سے طلاق نہیں دی اگر خلع کی نیت سے طلاق دینی ہوتی تو میں مہر دینے کی بات نہ کرتا۔
صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ" میں آپ کو سنت کے مطابق ایک طلاق دے رہا ہوں "تو اس جملے سے بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہو گئی، اس طلاق کے بعد عدت پوری ہونے یعنی مکمل تین ماہواریاں گزرنے سے پہلے تک شوہر نے قولاً یا فعلاً رجوع کر لیا (یعنی بیوی سے کہا کہ میں رجوع کرتا ہوں یا بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرلیے) تو اس کا اپنی بیوی کے ساتھ نکاح برقرار رہے گا، اور دوبارہ نئے سرے سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، رجوع کی صورت میں آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔
باقی اگر بیوی نے خلع لینے کا ارادہ کیاتھا، پھرشوہر کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئی،اور شوہر نے خلع نہیں دی تھی تو اس سے میاں بیوی کے درمیان کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا كذا في الكنز".
(كتاب الطلاق، ج:1، ص:354، ط:مکتبہ رشيديه)
فتاوی شامی میں ہے:
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".
(کتاب الطلاق،باب الرجعة،ج:3،ص:397،دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503102489
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن