بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے لیے شوہر کے مال سے اجازت کے بغیر صدقہ کرنے کاحکم


سوال

میرے شوہر ملک سے باہر کام کرتے ہیں اور وہ ہر مہینے مجھے گھر کے خرچے کیلئے مناسب رقوم بھیجتے ہیں جس میں گھر کے تمام اخراجات بشمول گھر کا کرایہ، بچوں کی اسکول کی فیس، ڈرائیور اور ماسی کی تنخواہ، دوائیوں کے پیسے، بجلی ، گیس، پانی کے بل وغیرہ وغیرہ ،اب سوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہےاور میری والدہ اور میرا چھوٹا بھائی جو کہ چھبیس سال کا ہے مجھ سے ہر تھوڑے دن بعد (مہینے میں ایک دفعہ سے زیادہ) پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں کبھی بجلی کے بل کے لئے تو کبھی پانی کے ٹینکر کے لئے تو کبھی راشن کے لئے تو کبھی کیش کی صورت میں اور یہ سلسلہ مسلسل کئی سالوں سے جاری ہے جس کا میرے شوہر کو پوری طرح علم نہیں ہے بس اتنا پتا ہے کہ میں ان کی ہر مہینے میں ایک دفعہ راشن کی صورت میں مدد کرتی ہوں جب کہ میں مہینے میں کئی بار ان کے پانی کے ٹینکر ، بجلی کے بل ، انڈے دودھ، گوشت اور کیش بھی ہزاروں روپے کی صورت میں مدد کرتی ہوں کیا ایسا کرنا شوہر کے علم میں پوری طرح لائے بغیر شرعاً جائز ہے یا مجھے ہر بار کسی بھی صورت میں مدد کرتے وقت اپنے شوہر کو مطلع کرنا چاہیے۔ ۔ براہ مہربانی شرعی طور پر رہنمائی فرمائیں!

جواب

 صورتِ مسئولہ میں بیوی کے پاس شوہر کا مال امانت ہے اس پر شوہرکے مال  کی حفاظت کرنا  ضروری ہے ،اور شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے کسی کو دینا جائز نہیں ہے۔ 

البتہ مرد نے عورت کو صوابدید کے مطابق   خرچ کرنے کی اجازت دے رکھی ہو،اورشوہراس کاحساب طلب نہ کرتاہو ،تو عورت کے لیے اسے اپنے گھروالوں کی ضروریات میں خرچ کرنا جائز ہوگا لیکن جب گھروالوں کے اخراجات بہت زیادہ ہیں ،تو بہتر یہی ہے کہ شوہر کو اعتماد میں لیاجائے اگر اجازت دے تو خرچ کرے ورنہ نہ کرے،بہرکیف عورت کو شوہر کی اجازت و رضا مندی حاصل کر لینی چاہیے۔

مسند أحمد میں ہے :

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم: أي النساء خير؟ قال: "التي تسره إذا نظر إليها، وتطيعه إذا أمر، ولا تخالفه فيما يكره في نفسها، ولا في ماله."

(ج:15، ص:360، ط: مؤسسة الرسالة)

مصنف ابن أبي شيبة میں ہے:

’’عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «خير فائدة استفادها المسلم بعد الإسلام امرأة جميلة، تسره إذا نظر إليها وتطيعه إذا أمرها، وتحفظه إذا غاب عنها في ماله ونفسها."

(ج:3، ص:559، ط: مكتبة الرشد - الرياض

شرح السنۃللبغوی میں ہے:

"عن أبي أمامة الباهلي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول في خطبته عام حجة الوداع: «لا تنفق امرأة شيئا ‌من ‌بيت ‌زوجها إلا بإذن زوجها»، قيل: يا رسول الله، ولا الطعام؟ قال: «ذاك أفضل أموالنا»."

(کتاب الزکوۃ ،باب المراۃ تتصدق من مال الزوج والخازن والعبد من مال المولی،ج،6،ص،204،رقم الحدیث ،1696،ط،المکتب الاسلامی)

"عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز خرچ نہ کرے۔کہا اے اللہ کے رسول اور غلہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ تو ہمارے افضل مالوں سے ہے۔"

مرقات المفاتیح میں ہے:

"ألا لا تنفق " امرأة شيئا ‌من ‌بيت ‌زوجها إلا بإذن زوجها " أي صريحا أو دلالة (قيل: يا رسول الله ولا الطعام؟ قال: " ذلك ") أي الطعام " أفضل أموالنا " أي أنفسنا، وفي نسخة أموال الناس، يعني فإذا لم تجز الصدقة بما هو أقل قدرا من الطعام بغير إذن الزوج، فكيف تجوز بالطعام الذي هو أفضل."

(کتاب الزکوۃ،باب صدقۃ المراۃ من مال الزوج،ج،4،ص،1358،ط،دارالفکربیروت )

فقط و الله أعلم




فتوی نمبر : 144411100477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں