بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی شرم گاہ کو چومنا اورمیاں بیوی کی ایک ساتھ غسل کرنے کاحکم


سوال

کیا ہم اپنی بیوی کی شرم گاہ  کو چوم سکتے ہیں؟ اور کیا میاں بیوی ایک ساتھ غسل کر سکتے ہیں؟

جواب

1-صورتِ  مسئولہ میں مرد وعورت کا ایک دوسرے کی شرمگاہ چومنا،یہ عمل میاں بیوی کے درمیان بھی غیرشریفانہ اورغیرمہذب عمل ہے،میاں بیوی کاایک دوسرے کی شرمگاہ کودیکھنابھی غیرمناسب ہے ، لہذااس سے حترازکیا جائے۔

2-  میاں بیوی دونوں ایک ساتھ نہاسکتے ہیں،البتہ حیا کا تقاضہ یہ ہے  کہ اس دوران ایک دوسرے کے ستر کو نہ دیکھا جائے، حدیث شریف میں ہے:

حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتی تھی، آپ مجھ پر سبقت فرماتے تو میں کہتی: میرے لیے بھی پانی چھوڑیے، میرے لیے بھی پانی چھوڑیے، اس حال میں کہ ہم دونوں حالتِ جنابت میں ہوا کرتے تھے۔

صحیح مسلم میں ہے:

" عن معاذة عن عائشة - رضي الله عنهما - قالت كنت أغتسل أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد بيني وبينه فيبادرني حتى أقول دع لي دع لي قالت وهما جنبان."

(کتاب الغسل ،‌‌باب: ‌غسل ‌الرجل ‌والمرأة من الإناء الواحد من الجنابة،ج1،ص،158،رقم الحدیث،161،ط،المکتب الاسلامی)

و فیه أیضًا:

"عن عائشة، قالت: «‌ما ‌نظرت، أو ما رأيت فرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قط»."

(کتاب النکاح ، باب التستر عند الجماع: ج:1 ص :619 ط : دار إحیاء الکتب العربیة)

ترجمہ: ” ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سترکی طرف کبھی نظرنہیں اٹھائی۔“

سنن ابن ماجہ   میں ہے:

"عن عتبة بن عبد السلمي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا أتى أحدكم أهله ‌فليستتر، ولا يتجرد تجرد العيرين»."

(کتاب النکاح ، باب التستر عند الجماع: ج:1 ص:618 ط : دار إحیاء الکتب العربیة)

ترجمہ:” حضرت عتبہ بن عبد السلمی رضی اللہ عنہ سے مروی کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے توپردے کرے،اورگدھوں کی طرح ننگانہ ہو۔(یعنی بالکل برہنہ نہ ہو)۔“

ان روایتوں سے معلوم ہواکہ اگرچہ شوہراوربیوی ایک دوسرے کاستردیکھ سکتے ہیں لیکن آداب زندگی اورشرم وحیاء کاانتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہراوربیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کاسترنہ دیکھیں۔

حنفی  مسلک  کی بعض کتبِ فتاوٰی   (فتاوٰی ہندیہ اور المحیط البرہانی)میں  ایک قول  مذکورہ عمل کے  ناجائز (مکروہِ تحریمی) ہونے کا لکھا ہے، نیز ملکِ شام کے مشہور محقق عالم دکتور وہبہ زحیلی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف "الفقہ الاسلامی و ادلتہ"  میں اسے  حرام لکھا ہے، اوراسے مغرب سے درآمد شدہ، حیا باختہ حرکت قرار دیا ہے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

 "بے شک شرم گاہ کاظاہری حصہ پاک ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک چیزکومنہ لگایاجائے اورمنہ میں لیاجائے اورچاٹاجائے، ناک کی رطوبت پاک ہے توکیاناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا،اس کی رطوبت کومنہ میں لیناپسندیدہ چیزہوسکتی ہے؟توکیااس کوچومنے کی اجازت ہوگی؟نہیں ہرگزنہیں،اسی طرح عورت کی شرم گاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں،سخت مکروہ اورگناہ ہے۔ غور کیجیے! جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے،قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے،درودشریف پڑھاجاتاہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کودل  کیسے گوارا کرسکتاہے؟"

(کتاب الحظر و الاباحۃ :  ج:10، ص:178 ط:دارالاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100817

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں