بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے نام مکان کرنا / بیوہ سات بیٹوں اور پانچ بیٹیوں میں میراث کی تقسیم


سوال

میرے ایک دوست کے والد صاحب نے اپنی محنت اور مشقت کی کمائی سے ایک تین منزلہ مکان بنایا اور بعد میں اپنی زوجہ کے نام کروادیا ، کچھ عرصہ قبل دوست کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا، مرحوم انتقال تک اپنی زوجہ اور تمام بیٹوں کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہے تھے اور ان کی تدفین بھی اسی گھر سے ہوئی تھی ،اب سوال یہ ہے کہ اس مکان کی ملکیت کی شرعی حیثیت کیا ہو گی ؟  اگر والد کی ملکیت ہے تو اس کی شرعی تقسیم کیا ہو گی ؟ سات بھائی اور پانچ بہنیں ہیں جو کہ سب شادی شدہ ہیں اور والدہ بھی حیات ہیں اور  اگر والدہ کی ملکیت ہے تو شرعی تقسیم کیا ہو گی ؟اگر والدہ کی ملکیت ہے تو کیا والدہ یہ مکان کسی بھی ایک بیٹے یا بیٹی کے نام کر سکتی ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں  اگر مرحوم  نے  مذکورہ مکان اپنی بیوی کے نام،  ہدیہ ( گفٹ) کی نیت سے کیا تھا  اور نام کرنے کے بعد گھر کا مکمل قبضہ و تصرف بھی دے دیا تھا تو اس صورت میں یہ گھر مرحوم کی بیوی  کی ملکیت میں آگیا تھا، اب وہ مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا اور  جب تک  مرحوم کی بیوہ حیات ہیں یہ ان کی ملکیت ہے، بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم نہیں ہوگا ،تاہم اگر  بیوہ اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو کرسکتی ہیں، اور اپنی  زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے،  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ  (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»."

(مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی، البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہےنیز جس کو جوکچھ دیا جائے وہ مکمل قبضہ کے ساتھ دیا جائے ،صرف نام کرنا  کافی نہیں ہوگا ۔ بہرصورت کسی ایک یا بعض کو دے دینا اور دوسروں کو بالکل محروم کرنا جائز نہیں ہے۔

یہ سب تفصیل اس صورت میں تھی کہ جب مرحوم نے اپنا قبضہ و تصرف ختم کرکے، یہ گھر اپنی بیوی کو  مکمل  قبضہ  و تصرف کے ساتھ   ہدیہ کردیا ہو، لیکن اگر مرحوم نے یہ گھر  صرف بیوی کے نام کیا تھا،  مکمل قبضہ و تصرف کا اختیار نہیں دیا تھا، اگرچہ نام کرتے ہوئے ہدیہ کی نیت تھی،تو اس صورت میں  قبضہ نہ دینے کی وجہ سے ہدیہ مکمل نہ ہوا، لہٰذا یہ گھر مرحوم کی ملکیت  تھا اور   اب مرحوم کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگا ۔

مرحوم کے  ورثاء  میں اگر صرف بیوہ ، سات بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں ،یعنی مرحوم کے والدین  موجود نہیں ہیں تو اس صورت میں ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  مرحوم کے ترکہ میں  سے اس کے حقوقِ  متقدمہ  یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، مرحوم  کے ذمے  اگر کوئی قرض ہے تو اسے کل ترکہ  میں سے ادا کرنے کے بعد، مرحوم نے اگر کوئی  جائز وصیت کی ہو تو اسے   باقی ترکے کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرکے  باقی کل منقولہ وغیر منقولہ  ترکہ کو  152 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو  19 حصے ،مرحوم کے ہر بیٹے کو  14 حصے اور مرحوم کی ہر بیٹی کو  7  حصے ملیں  گے ، یعنی 100روپے میں سے  مرحوم کی بیوہ کو  12.50 روپے ،مرحوم کے ہربیٹے کو  9.21  حصے اور ہر بیٹی کو  4.60 روپے ملیں گے ۔

وفي الفتاوى الهندية:

"ومنها: أن يكون الموهوب مقبوضًا حتى لايثبت الملك للموهوب له قبل القبض."

(4/374ط:دار الفکر)

وفي رد المحتار:

"(وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لايكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لايكون هبة."(5/ 689ط:سعيد)

وفي الفتاوى الهندية :

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية." (4/ 391ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144210200036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں