میرا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت سے ہے ،میری 8 سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ اور میری دو بیٹیاں ہیں ایک کی عمر 7 سال اور دوسری کی عمر 3 سال ہے۔ شادی کے بعد سے ہی میری بیوی ازدواجی زندگی میں سخت پریشانی کے ساتھ ساتھ جھوٹ کے ذریعے سے فساد اور غلط الزامات ادھر سے ادھر پہنچاتی رہی۔ اس کے باوجود میں نے اپنے خاندان کی عزت اور بدنامی کے ڈر سے اس کو آباد رکھا اور ہر ممکن کوشش کی کہ وہ خوش رہے اور اس کی جائز خواہشات پوری کیں، تین ماہ قبل مورخہ 2202 .19.1 کو میری بیوی اچانک سے اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھہ گھر سے غائب ہوگئی جس کی بابت ایف ائی آر درج کرائی۔ اور بعد ازاں دوران تفتیش موبائل رکارڈ کی مدد سے اس کا سراغ لاہور میں غیر اشخاص سے ملا جس کے گواہاں پولیس کے تفتشی افسران اور لڑکی کا بھائی ،ماموں ،کزن اور میرا بھائی بھی ہیں۔ عدالتی بیان میں بعد ازاں برآمدگی کے اس کا بیان درج ہے کہ جس میں اس نے میرے نکاح سے اعراض کیا،اور دونوں بچیوں کے ناجائز ہونے کا ذکر کیا اور بیان دیا کہ میں اپنے مرضی سے گئی تھی اور ہوٹل میں رہائش پزیر رہی اور کسی نے مجھے اغوا نہیں کیا، اور بعوض پانچ لاکھ روپے ضمانت کے عدالتی احکام کے بعد سے اپنے والد اور بھائی کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اور اس کے کچھ دن بعد مجھ پہ عدالت میں جاکر اغوا کا جھوٹا دعویٰ کر کے عدالتی فیصلے کے عوض بچوں کو اپنے پاس رکھ لیا۔ میری بیوی کی پرانی سم جو میرے نام پر تھی اس کےآن کرنے اور واٹس ایپ کھولنے پر پتہ چلا کہ میری بیوی کے کچھ غیر مردوں کے ساتھ روابط کا سلسلہ پچھلے چار سالوں سے جاری تھا، آپ سے استفتاء یہ درکار ہے کہ لڑکی کے غیروں سے برآمدگی اور عدالتوں میں جھوٹے بیانات اور صلح اور دوبارہ آباد ہونے کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہنے پر اور غیروں کے ساتھ غیر مناسب اور غیر اخلاقی روابط کے ثابت ہونے کے باوجود کیا اس لڑکی کے نان و نفقے کی ذمہ داری شوہر پہ بنتی ہے یا نہیں ؟
2)اور دوسرا یہ کہ ایسی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں بیوی کے ساتھ بچوں کا رہنا ان کی اخلاقی اور تعلیمی تربیت کے اعتبار سے کیسا ہے ؟اور کیا والد کو ان حالات میں بچوں کو پاس رکھنے اور ان کی پرورش کرنے کی شریعت اجازت دیتی ہے؟
صورت مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہےکہ بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر بلا وجہ میکے میں بیٹھی ہے تو وہ ناشزہ ہونے کی وجہ سے نفقہ کی حق دار نہیں، جب تک وہ واپس شوہر کے گھر نہ آجائے یا شوہر اس کو میکے میں رہنے کی اجازت نہ دے دے اس وقت تک شوہر کے ذمہ اس کا نان نفقہ دینا واجب نہیں ہے۔
2۔ میاں بیوی میں علیحدگی کی صورت میں لڑکی کی عمر نو سال اور لڑکے کی عمر سات سال ہونے تک اس کی پروش کا حق اس کی والدہ کو حاصل ہوتا ہے،اس کے بعد ان کی پرورش کا حق ان کے والد کو ہوتا ہے،البتہ اگر بچیوں کے والد کا بیان درست ہے کہ اس کی بیوی کے غیر مردوں سے تعلقات ہیں اور وہ بچیوں کو بری عادتوں والی ماں کی صحبت سے بچانا چاہتا ہے تب بھی نو سال سے پہلے پرورش کا حق ماں کے بعد باپ کو نہیں بلکہ ماں کے بعد نانی، دادی، خالہ اور پھوپی کو بالترتیب حاصل ہوگا۔
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه."
(کتاب الطلاق الباب السابع عشر (545/1) ط مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء و قدر بسبع و به يفتى؛ لأنه الغالب."
(باب الحضانۃ،3/566، ط: ایچ ایم سعید)
فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى-: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا".
(کتاب الطلاق ،الباب السادس عشر،541/1، ط: مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100463
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن