بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے جن رشتہ داروں کا گھر آنا شوہر کو پسند نہ ہو، بیوی کا ان کو دعوت دینا کیسا ہے؟


سوال

بیوی کے جن رشتہ داروں کا گھر آنا شوہر کو پسند نہ ہو، بیوی کا ان کو دعوت دینا کیسا ہے؟

جواب

میاں بیوی کے رشتے میں شریعت نے شوہر کو بڑا درجہ اور اہمیت دی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "بالفرض اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔"بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو اپنے لیے سب سے بالاتر سمجھے، اس کی وفادار اور فرمانبردار رہے، اس کی خیر خواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے، لہٰذا بیوی کے جن رشتہ داروں کا گھر آنا شوہر کو پسند نہ ہو، شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر بیوی ان کو دعوت نہ دے۔

شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے، اس سے محبت کرے، اس کے جذبات کی قدر کرے، اس کے والدین اور دیگر اعزہ کا احترام کرے، صلہ رحمی کے احکام کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے مواقع پر فیصلہ کرے، اور یہ بات بھی سامنے رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے نسبی رشتے کی طرح سسرالی رشتے کو بھی اپنی نعمت شمار فرمایا ہے۔

معارف القرآن میں مفتی شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ مِنَ ٱلْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُۥ نَسَبًا وَصِهْرًا"نسب اس رشتہ و قرابت کو کہا جاتاہے جو باپ یا ماں کی طرف سے ہو،اور صہر وہ رشتہ و تعلق ہے جو بیوی کی طرف سے ہو جس کو عرف میں سسرال بولتے ہیں ،یہ سب تعلقات اور قرابتیں اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں ،جو انسان کی خوشگوار زندگی کے لیے لازمی ہیں ،اکیلا آدمی کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔

(معارف القرآن،سورۃ الفرقان، ج:6، ص: 486،ط:  مکتبہ معارف القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو ‌كنت ‌آمر ‌أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب عشرة النساء، ‌‌الفصل الثاني، ج:٢، ص:٩٧٢، رقم:٣٢٥٥، ط:المكتب الإسلامي)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"(ولكم عليهن أن ‌لا ‌يوطئن ‌فرشكم أحدا تكرهونه فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربا غير مبرح) قال المازري: قيل: المراد بذلك أن لا يستخلين بالرجال ولم يرد زناها؛ لأن ذلك يوجب جلدها، ولأن ذلك حرام مع من يكرهه الزوج ومن لا يكرهه، وقال القاضي عياض: كانت عادة العرب حديث الرجال مع النساء ولم يكن ذلك عيبا ولا ريبة عندهم، فلما نزلت آية الحجاب، نهوا عن ذلك، هذا كلام القاضي، والمختار أن معناه أن لا يأذن لأحد تكرهونه في دخول بيوتكم والجلوس في منازلكم سواء كان المأذون له رجلا أجنبيا أو امرأة أو أحدا من محارم الزوجة، فالنهي يتناول جميع ذلك، وهذا حكم المسألة عند الفقهاء أنها لا يحل لها أن تأذن لرجل أو امرأة ولا محرم ولا غيره في دخول منزل الزوج إلا من علمت أو ظنت أن الزوج لا يكرهه؛ لأن الأصل تحريم دخول منزل الإنسان حتى يوجد الإذن في ذلك منه أو ممن أذن له في الإذن في ذلك أو عرف رضاه باطراد العرف بذلك ونحوه، ومتى حصل الشك في الرضا ولم يترجح شيء ولا وجدت قرينة لا يحل الدخول ولا الإذن، والله أعلم."

(كتاب الحج، ج:٨، ص:١٨٣، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌وحقه ‌عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.

(قوله في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به."

(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، ج:٣، ص:٢٠٨، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں