میری بیٹی کی شادی کو پونے دو سال ہوگئے،وہ اپنے سسرال میں 5 ماہ رہی،پھر طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے سوا سال سے سسرال والوں نے اسے ہمارے گھر چھوڑا ہوا ہے،نہ سسرال والے اور نہ شوہر خبر لیتا ہے،سسرال والے کہتے ہیں کہ ہماری طرف سے یہ رشتہ ختم گیا ہے، اور جب ہمیں ضرورت ہوگی، تو اس کا شوہر اسے لائے گا،باقی شوہر کچھ نہیں کہتا اور نہ اب تک اس نے طلاق دی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر شوہر بیو ی سے کوئی رابطہ نہ کرےتو کب تک یہ رشتہ باقی رہے گا؟ اتنے عرصے رابطہ نہ کرنے سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں؟ واضح رہے کہ ہماری طرف سے طلاق یا خلع کامطالبہ نہیں۔
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق مقرر کیے ہیں،اور ان حقوق کی ادائیگی بقدرِ استطاعت دونوں پر لازم ہے،انہی حقوق میں سے بیوی کا یہ شرعی حق ہے کہ شوہر اسے رہائش فراہم کرے اور نان نفقہ دے ،نیز شوہر کے بیوی سے علیحدہ رہنے اور کوئی رابطہ نہ کرنے سے بھی نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اور نہ ہی نکاح ختم ہوتا ،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہے کہ سائل کی بیٹی کو سسرال والوں نے طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے سوا سال سے سائل کے گھر چھوڑا ہوا ہے، اور شوہر بھی اپنی بیوی(سائل کی بیٹی)سےکوئی رابطہ نہیں کرتا، تو شوہر کا ایسا کرنا شرعاً واخلاقاً درست نہیں،بلکہ شرعاً شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے، اوراس کے نان نفقہ کا بھی انتظام کرے،نیز اس سلسلے میں سائل کو چاہیے کہ لڑکے کے خاندان کے معزز اور بزرگ افراد کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے کہ وہ سائل کے داماد کو سمجھائیں کہ وہ اپنی بیوی کی ذمہ داریاں اٹھائے، اور دوبارہ سےاپنا گھر بسائے،باقی شوہر کے اتنے عرصے رابطہ نہ کرنے سے سائل کی بیٹی کا نکاح ختم نہیں ہوا،نکاح اب بھی بدستور قائم ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"تجب علی الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمیة والفقیرة والغنیة دخل بها أو لم یدخل، كبیرةً کانت المرأة أو صغیرةً، یجامع مثلها، کذا في فتاویٰ قاضي خان. سواء کانت حرةً أو مکاتبةً، كذا في الجوهرة النیرة."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر فی النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، ج:1 ص:544، ط:دار الفکر)
وفیه ايضاً:
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز وإن أسكنها في منزل ليس معها أحد فشكت إلى القاضي أن الزوج يضر بها، ويؤذيها وسألت القاضي أن يأمره أن يسكنها بين قوم صالحين يعرفون إحسانه وإساءته، فإن علم القاضي أن الأمر كما قالت زجره عن ذلك، ومنعه عن التعدي، وإن لم يعلم ينظر إن كان جيران هذه الدار قوما صالحين أقرها هناك، ولكن يسأل الجيران عن صنعه، فإن ذكروا مثل الذي ذكرت زجره عن ذلك ومنعه عن التعدي في حقها، وإن ذكروا أنه لا يؤذيها فالقاضي يتركها ثمة، وإن لم يكن في جواره من يوثق به، أو كانوا يميلون إلى الزوج فالقاضي يأمر الزوج أن يسكنها في قوم صالحين، ويسأل عن ذلك، ويبني الأمر على خبرهم كذا في المحيط."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر فی النفقات، الفصل الثاني في السكنى، ج:1 ص:556، ط:دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:441، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102011
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن