بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی دھمکی دینے سے طلاق کا حکم


سوال

میرے شوہر نے بائیس ذوالحجہ کو شام چھ بجے وائس میسج بھیجا جس میں تین دفعہ طلاق کی دھمکی دی۔ پہلی بار کہا "اگر آپ ایفڈیوٹ نہیں دیتیں تو میں آپ کو طلاق نامہ بھیجتا ہوں۔" دوسری دفعہ کہا " اگر آپ ایفڈیوٹ نہیں دیتیں تو میں آپ کو اِن رائٹنگ ڈیوارس (طلاق) بھیجتا ہوں۔" تیسری بار کہا "آپ کون ہوتی ہیں کہ ڈپٹی کمشنر کو کہیں کہ مجھ کو دوسری شادی کی پرمیشن نہ دیں۔ اکر آپ نے ایسا نہیں کیا ہے تو چار پانچ گھنٹوں میں اِن رائٹنگ بات واضح کر دیں۔ ورنہ میں آپ کو اِن رائٹنگ ڈیوارس (طلاق) بھیج دوں گا۔" شوہر نے پھر اپنے سے پینتیس سال چھوٹی اٹھارہ سالہ لڑکی سے (اس کے گھر والوں کو بھاری رقم اور جائیداد کے عوض) دوسری شادی کر لی ہے اور ہم سے تعلق مکمل طور پر ختم کر لیا ہے مگر ابھی تک طلاق نامہ نہیں بھیجا ہے۔ کیا طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ 

وضاحت:وائس میسج میں تین بار طلاق کی بات کی اور چار، پا نچ گھنٹوں کے اندر مجھ سے حلف نامہ مانگا تھا جو کہ میں نے نہیں بھیجا -اوریہ بھی کہا کہ اب مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ میرے شوہر نے پچھلے دس سال سے مجھے سخت ذہنی اذیت میں رکھا ہوا ہے اور سات سالوں سے گھر میرے ساتھ نہیں رہ رہے ہیں، ملک سے باہر ہیں- میں نے انکو ٹیکس میسج کیا کہ طلاق ہو چکی ہے تو اس بات سے انکار نہیں کیا اور مکمّل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں شوہر کی جانب سےمذکورہ  جو الفاظ ادا کیے گئے ہیں ان سب میں بیوی(سائلہ) کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اس نے ایفڈیوٹ نہیں دیایااس نے ڈپٹی کمشنر سے بات کی وضاحت نہیں کی تو وہ تحریری طور پر طلاق  نامہ بھیج دے گا،لہذا  سوال میں ذکر کردہ دھمکی کے مذکورہ الفاظ سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،اگر شوہر نے مذکورہ الفاظ کے علاوہ زبانی یا تحریری طور پر طلاق نہیں دی تونکاح بدستور قائم ہے۔

البتہ شوہر پر  اپنی دونوں بیویوں کے درمیان نان ونفقہ ، لباس اور شب باشی  میں برابری کرنا  ضروری ہے،کسی ایک بیوی کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنا شرعاً ناجائز ہے اور احادیث میں اس پر بہت سخت وعید آئی ہے،لہذا شوہر پر لازم ہے کہ بیویوں کے درمیان مساوات کا خیال رکھے اور پہلی بیوی کے حقوق ادا کرے ،اگر شوہر کے  لیے حقوق کی ادائیگی ممکن نہ ہو تو سلیقے سے اس رشتہ کو ختم کردے ،بیوی کو چاہیے کو حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کرے ،اگر وہ آمادہ نہ ہو تو خاندان کے  معزز لوگوں کے سامنے یا محلے کی پنچایت کے سامنے اس معاملہ کو رکھے، اور ان کے تعاون سے اس مسئلہ کا حل نکالا جائے پھر بھی  اگر شوہراپنے رویہ میں  تبدیلی نہ لائے تو سائلہ  اپنے  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے ، اور اگر وہ طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو  اسے راضی کر کے اس سےخلع حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر شوہر نہ طلاق دے اور نہ ہی خلع  دینے پر رضامند ہو اور بیوی کو ساتھ رکھنے  اور اس کو نان ونفقہ دینے پر بھی تیار نہ ہو تو   سخت مجبوری کی حالت میں  عدالت سے تنسیخِ نکاح کرایا جاسکتا ہے،  جس کی صورت یہ ہے کہ  عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے  پیش کرے، اور متعلقہ جج  شرعی شہادت کے ذریعہ  معاملہ کی  پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ  صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر  باوجود  وسعت کے  خرچہ نہیں دیتا تو اس کے  شوہر سے کہا جائے کہ  عورت کے حقوق ادا کرو یا  طلاق دو ،  ورنہ ہم تفریق کردیں گے،  اس کے بعد بھی اگر  وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی ان دونوں کے نکاح کو فسخ کردے، اور فیصلہ میں یہ لکھے کہ میں ۔۔۔۔نے  فلانہ بنت فلاں کا نکاح جو فلاں بن فلاں کے ساتھ ہوا ہے فسخ کردیا ہے، پھر اس کے بعد عورت عدت گذار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

 فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا﴾."(النساء:3)

" ترجمہ:اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے."( بیان القرآن )

حدیث مبارکہ میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل." 

(سنن أبي داؤد،باب في القسم بين النساء،ج 3 ،ص 469،دار الرسالة العالمیة)

"ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔"

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.

(قوله وظاهر الآية أنه فرض) فإن قوله تعالى {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} [النساء: 3] أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور. (قوله وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع."

(کتاب النکاح ،باب القسم بین الزوجات،ج3،ص202،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا بأس به عند الحاجة) للشقاق بعدم الوفاق.

(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية، وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب."

( فتاوی شامی ،باب الخلع،ج3،ص441،ط:سعید)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(قوله وما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر."

(کتاب الطلاق،باب الصریح،ج3،ص248،ط؛سعید)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"لکھا کہ مہر کا معافی نامہ بھیج دو تو میں طلاق لکھ کر بھیجتا ہوں،عورت نے بھیج دیا ،شوہر کا جواب نہیں آیا تو کیا حکم ہے؟

سوال:زید ہندہ کو اس کے میکے میں چھوڑ کر ملایاٹاپو چلا گیا،جس کو عرصہ زائد نو سال سے ہوتا ہے،اور اس دوران میں ہندہ کی کچھ خبر نان ونفقہ کی نہ لی،اب زید نے بذریعہ خط ہندہ کو اطلاع دی کہ اگر ہندہ بذریعہ خط اپنا مہر بخش کر اور دوگواہان سے دستخط ثبت کراکر میرے پاس بھیج دے تو میں ہندہ کو طلاق لکھ کر بھیجتا ہوں،چنانچہ ہندہ نے ایسا ہی کیا جس کو عرصہ دوماہ سے زائد ہوا،مگر اب تک زید نے کوئی جواب ہندہ کو نہیں دیا تو ہندہ پر طلاق واقع ہوئی یا نہیں۔

الجواب۔زید نے جو کچھ خط میں لکھاہے۔اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر ہندہ مہر کی معافی لکھ بھیجے گی تو میں طلاق لکھ بھیجوں گا،پس یہ وعدہ ہوا زید کی طرف سے طلاق دینے کا مہر کی معافی پر ہے،پس زید کو چاہیے کہ موافق اپنے وعدے کے طلاق دے دیوے اور لکھ بھیجے،لیکن جب تک زید طلاق نہ دے گا،اس وقت تک طلاق واقع نہ ہوگی اور نہ مہر معاف ہوگا،کیونکہ معافی مہر کی طلاق دینے پر ہے،الغرض بدونِ طلاق دینے زید کے طلاق واقع نہ ہوگی،زید کو پھر لکھا جاوے کہ وہ کچھ جواب دےدیوے۔فقط"

(کتاب الطلاق،ج9،ص48،ط؛دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں