بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو طلاق دینے کی صورت میں مطلقہ کا بچہ کون پالے گا؟


سوال

اگر شوہر پہلی بیوی کو طلاق دے دے تو کیا پہلی بیوی کا بچہ بھی دوسری بیوی پالے گی جب كه ابھی بچے کی عمر پانچ چھ سال ہو؟

 

جواب

واضح رہے کہ سات سال تک پرورش کا حق بچے کی سگی ماں کو حاصل ہے،  اگر ماں اس حق کو قبول نہ کرے یا وہ موجود نہ ہو تو سگی نانی، پھر اس نانی کی ماں (پرنانی)، پھر سگی دادی، پھراس سگی دادی کی ماں (پر دادی)، پھراس کی بہن، پھر ماں شریک بہن یعنی جو اس بچے سے ماں میں شریک اور باپ میں جدا ہو، پھر سوتیلی بہن، پھر سگی بھانجی، پھر ماں شریک بہن کی بیٹی، پھر سگی خالہ، پھر ماں شریک خالہ، پھر سوتیلی خالہ، پھر سگی بھانجی، پھر سوتیلی بھانجی، پھر سگی بھتیجی، پھر سوتیلی، پھر سگی پھوپھی، پھر ماں شریک، پھر سوتیلی ، پھر ماں کی سگی خالہ ،پھر ماں شریک، پھر سوتیلی ، پھر باپ کی سگی خالہ، پھر ماں شریک، پھر سوتیلی، پھر ماں کی سگی پھوپھی، پھر ماں شریک، پھر سوتیلی، پھر باپ کی سگی پھوپھی، پھر ماں شریک، پھر سوتیلی، یہ کل بتیس  32 عورتیں ہیں جن کو اس بچے کی پرورش کا حق منتقل ہوگا۔

جب ان بتیس عورتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو یا کسی شرعی وجہ سے پرورش کرنے کی مستحق نہ رہے تو پھر پرورش کا حق باپ کو حاصل ہوگا۔ اور جب پرورش کا یہ حق باپ کو حاصل ہوگا تو اس صورت میں باپ یا تو اس بچے کی پرورش کے لیے کوئی خادمہ رکھے ( جو اس بچے کی تمام ضروریات کی نگہداشت کرے اور اس کی ضروریات کا انتظام بہترین انداز میں کرسکے، جس کا خرچہ باپ کے ذمے  لازم ہوگا) ، یا اپنی دوسری بیوی سے گزارش کرے کہ وہ اپنے شوہر کے بچے کی پرورش کے فرائض انجام دے ۔ اور مذکورہ دوسری بیوی کو چاہیے کہ اگر کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو تو اپنے شوہر کے دیگر خدمتی فرائض بجالاتے ہوئے اخلاقًا اس خدمت کو بھی خوشی سے قبول کرے اور اس بچے کی اچھے انداز میں پرورش کرے ۔

واضح رہے کہ بچہ جب ماں کی پرورش سے مستغنی ہوجائے، یعنی اگر لڑکا ہے تو اس کی عمر سات  سال ہوجائے اور اگر لڑکی ہے تو اس کی عمر نو سال ہوجائے تو پرورش کا حق باپ یا قریبی عصبات کی طرف لوٹ آتا ہے ۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"فأحق النساء من ذوات الرحم المحرم بالحضانة الأم؛ لأنه لا أقرب منها ثم أم الأم ثم أم الأب؛ لأن الجدتين وإن استويتا في القرب لكن إحداهما من قبل الأم أولى."

(4/41، فصل فی بیان من له الحضانة، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء و قدر بسبع و به يفتى؛ لأنه الغالب."

(3/566، باب الحضانة، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب، كذا في فتاوى قاضي خان."

(1/ 542) باب الحضانة، ط: رشیدیه)

الفتاوى الهندية (11 / 315):

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق".

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبراً وإلا لا، (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى".

(3/566، باب الحضانة، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 

 


فتوی نمبر : 144207200040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں