واضح رہے کہ شریعت میں شوہر کو بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے،چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ." (النساء: 19)"
ترجمہ:" عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آوٴ۔"
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
"خیرکم خیرکم لأھله وأنا خیرکم لأھلي."
ترجمہ:" تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں."
(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء، الفصل الثاني، ج:2، ص:289، رقم الحديث:3110،ط: رحمانية)
مزید فرمایا:
"إن أکمل المؤمنین إیمانا أحسنھم خلقا وألطفھم لأھله."
ترجمہ:"کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔"
(سنن ترمذي، أبواب الإيمان، باب ما جاء في استكمال الإيمان وزيادته ونقصانه، ج:5، ص:9، ط: مطبعة مصطفى البابي الحلبي)
اللہ تعالی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا چاہیے یعنی گفتگو میں نہایت شائستگی سے کام لیا جائے، باتوں میں حلاوت ومحبت ہو ،ڈانٹ ڈپٹ والا،غصیلا اورحاکمانہ اور ترش روی پر مشتمل انداز نہ ہو اور نہ ہی کوئی بدمزاحی کی جھلک ظاہر ہو،نیز بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔
مذکورہ تفصیل کے بعدآپ کے شوہر کو جائز امور میں آپ کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئےڈانٹنے اور سرزنش کا اختیار تو حاصل ہے،لیکن کسی دوسرے شخص کو سنانے کی غرض سے اپنی بیوی کو سب کے سامنے ڈانٹنے کامذکورہ طریقہ نامناسب ہے، ایسے افعال بسا اوقات غیر محسوس طریقے پرباہمی ناچاقیوں کا سبب بن جاتے ہیں ،جن سے جانبین کو مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،لہٰذا آپ کے شوہر کا مذکورہ طریقہ نامناسب ہونے کی وجہ سے قابلِ اصلاح ہے، اگر شوہر کودوسروں کی تادیب اور سرزنش مقصود ہی ہےتو مذکورہ طریقےکے بجاۓ انہیں کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیے ۔
تفسیر ِروح المعانی میں ہے:
" فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًاؕ أي فلا تطلبوا سبيلا وطريقا إلى التعدي عليهن، أو لا تظلموهن بطريق من الطرق بالتوبيخ اللساني والأذى الفعلي وغيره واجعلوا ما كان منهن كأن لم يكن، فالبغي إما بمعنى الطلب، وسبيلا مفعوله والجار متعلق به، أو صفة النكرة قدم عليها، وإما بمعنى الظلم."
(سورة النساء، فلا تبغوا عليهن سبيلا إلخ، الآية:34 ، 3/ 26، ط: دارالکتب العلمیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144410101294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن