جب شوہر بیوی کو یہ کہیں کہ آپ آزاد ہو ، چاہے تو یہاں بیٹھیں یا باپ کے پاس چلی جائیں،کیا اس صورت میں طلاق ہو جا ئے گی اور کیا یہ کہنےکے بعد دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ لفظِ آزاد ہمارےعرف میں وقوعِ طلاق کے اعتبار سے صریح ہے، یعنی لفظ آزاد سے دی گئی طلاق نیت کے بغیر ہی طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے،جس سے نکاح اسی وقت ٹوٹ جاتا ہے، پھر دوبارہ ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں ہوتا، دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں شوہر نے بیو ی کو کہا کہ "آپ آزاد ہو چاہے تو یہاں بیٹھیں یا باپ کے پاس چلی جائیں" تو ا س صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہو چکی ہے ،لہذا مطلقہ اپنی عدت(مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی،البتہ اگر دونوں(مذکورہ شخص، اور مطلقہ) باہمی رضامندی سے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر اور شرعی گواہان کے روبرو دوبارہ نکاح (چاہےعدت کے دوران یا عدت کے بعد)کرکے میاں بیوی کی حیثیت سےرہ سکتےہیں ، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
رد المحتار میں ہے :
"(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".
(کتاب الطلاق ، باب صریح الطلاق ،3/ 252، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407102008
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن