میری شادی کو چار سال ہو گئےہیں ، ہماری پسند کی شادی تھی، میرے گھر والے اس شادی کے خلاف تھے، کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ لڑکا کماتا کم ہے، ہماری بیٹی جن آسائشوں کی عادی ہے لڑکا وہ سب نہیں دے سکتا ،لیکن رزق عورت کے نصیب سے ہوتا ہے،یہی بات میں نے اپنے گھر والوں کو سمجھائی، خیر بہت مشکلات کے بعد ہمارا رشتہ ہو گیا، شادی کے وقت میں یتیم تھی اور شادی کے شروع سے ہی بہت مشکلات دیکھیں، میں نے ہر جگہ ہر مشکل میں ان کا ساتھ دیا، لیکن وقت کے ساتھ ان کا رویہ میرے ساتھ بہت برا ہوتا چلا گیا، میں نے سوچا ذمہ داری بڑھ گئی ہے ، اس لیے ایسا ہے، لیکن پھر ایک دن انہوں نے مجھے حمل کی حالت میں گھر سے نکل جانے کو کہا میری سانسیں رک گئیں، اس حالت سے مجھے سمجھ نہیں آئی کیا کروں ؟میں نے اپنے گھر اپنی بیوہ ماں کو کال کی، انہوں نے مجھے واپس آنے کو کہا اور شرط رکھی کہ اس سے علیحدہ ہونا پڑےگا، میں ڈر گئی اور چپ کر کے ان کے ساتھ ہی رہنے لگی، انہوں نے مجھے بہت گندی گالی دی ،میں نے سب برداشت کر کے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا، لیکن پھر اللہ نے ہمیں بہت پیاری بیٹی سے نوازا، میرے شوہر بہت خوش تھے، میں نے سوچا اب سب ٹھیک ہو جائے گا ،لیکن وہ خوشی کچھ عرصہ کی ہی تھی، پھر ایک دن اپنی بھابی کی باتوں میں آ کر انہوں نے مجھے منہ پر تھپڑ مارے کہ میرے چہرے پر نشان پڑ گئے، میں نے وہ بھی برداشت کیا اور ہمیشہ کی طرح اپنی غلطیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور مزید اچھاہونے کی کوشش کی تاکہ میرا شوہر کسی کی باتوں میں آ کر مجھے حقیر نہ سمجھے ،جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں بہت آسائشوں میں رہی تھی، اس وجہ سے مجھے کھانا بنانا بھی نہیں آتا تھا، بس اسی وجہ سے باہر کے لوگوں کو موقع ملا اور شادی خراب کرنے کی کوشش کی تو بس میں نے اپنے کھانا کو اچھا کرنے کی اپنی پوری کوشش کی ،پھر جب کوئی گھر آیا سب نے میرے کھانے کی تعریف کی، میرے شوہر کا رویہ بھی میرے ساتھ اچھا ہونا شروع ہو گیا، دو سال بعد ہمارے حالات بھی اچھے ہو گئے،ہم نے اچھی جگہ گھر لیا، گاڑی لی ماشاءاللہ سے، اللہ نے شادی کے تین سال بعد پھر سے ہمیں بیٹی جیسی رحمت سے نوازا، میں اور میرے شوہر بہت خوش تھے، آج بھی اللہ نے الحمدللہ میری زندگی بہت خوبصورت کر دی دو بیٹیاں دے کر ،لیکن میرے شوہر جن کا میں نے ہر جگہ ہر مشکل میں ساتھ دیا آج ان کے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ مجھ پر میرے بچوں پر خرچ نہیں کرتے، بس ان لوگوں کے سامنے دکھاوا کرتے جو ان کا پہلے مذاق اڑایا کرتے تھے کہ انہیں پتہ چلے کہ اب ان کے پاس سب کچھ ہے،ان کے پاس رشتہ دار آتے ہیں ،ان سے کبھی کتنے مانگتے ہیں، کبھی کچھ مانگتے ہیں تو ان کے سامنے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں، مجھے وقت نہیں دیتے ہیں، اپنے موبائل میں لگے رہتے ہیں، بس اپنی ضرورت ہو تو آتے ہیں، میری برداشت اب ختم ہو گئی ہے اور آج وہ مجھ سے الگ نہیں ہونا چاہتے ہیں،لیکن میں انہیں سمجھاتے سمجھاتے تھک گئی ہوں کہ میں آپ کی ذمہ داری ہوں، کبھی تو میرا دل کرتا ہے کہ میں ان کو پاس نہ آنے دوں، میں کوئی استعمال کی چیز تو نہیں ہوں کہ جب آپ کا دل ہو تو استعمال کرو، اب ان کی ترقی کے لیے دل سے دعا نہیں نکلتی ہے،جب اپنے بچوں پر خرچ نہیں کرنا ،جب کچھ نہیں ہوگا تو باہر بھی خرچ نہیں کریں گے تو کم از کم مجھے دکھ تو نہیں ہو گا ،، پہلے کی طرح صبر کرلوں گی ،مہربانی فرما کر راہ نمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں ان سے تعلق توڑ دوں یا پاس نہ آنے دوں تا کہ انہیں سبق حاصل ہوکہ میں کوئی چیز نہیں ہوں بلکہ انسان ہوں ،میری بھی عزت ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا شوہر بیوی بچوں کے واجب اخراجات اٹھارہا ہے، لیکن اضافی خرچ نہیں دیتا تو شوہر اپنی آمدن کا مالک ہے، وہ اسے جائز جگہوں پر اپنی مرضی سے خرچ کرسکتا ہے۔ البتہ اگر سائلہ کا شوہر بیوی بچوں کے ضروری اور واجب اخراجات بھی پورے نہیں کرتا تو اس صورت میں وہ گناہ گار ہوگا۔
ایسی صورت میں سائلہ کی بیان کردہ صورتِ حال واقعتًا ناخوش گوار ہے، تاہم سائلہ کو چاہیے کہ صبر اور شکر کے ساتھ زندگی گزارے ،کیوں کہ اللہ تعالی کبھی تو انسان کو ان حالات سے آزماتے ہیں جو حالات انسان کے موافق ہوتے ہیں ،ان حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کا شکر کیا جائے ،اور کبھی ان حالات سے آزماتے ہیں جو انسان کی طبیعت کے خلاف ہوتے ہیں ،اور ان حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ صبر کیا جائے، صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی معیت کا وعدہ ہے اور شکر کرنے والوں کے ساتھ زیادتِ نعم (مزید نعمتوں ) کا وعدہ ہے ۔
سائلہ اور اس کے شوہر کو جو اللہ تعالی نے بیٹیوں جیسی رحمت ،نیا گھر اور گاڑی سے نوازا ہے ،نیز سائلہ کا شوہر اب دور اور علیحدہ ہونا بھی نہیں چاہتا ،اور دوسروں کے سامنے سائلہ کی تعریف بھی کرنے لگا ہے، سائلہ اس سب کچھ کو اپنے صبر کے نتیجے میں اللہ کی معیت سمجھے اور اللہ کا شکر ادا کرے ،اور شوہر کی خوشنودی والے کام کرے ، ان شاء اللہ اس کے نتیجہ میں اللہ مزید نعمتوں میں اضافہ فرمائیں گے ،اور سائلہ کی یہ پریشانی کہ سائلہ کو اس کے شوہر وقت نہیں دے رہے ،بچیوں پر خرچ نہیں کر رہے ہیں دور فرمادیں گے۔
ذیل میں کچھ قرآن کی آیات اور احادیث ترجمہ کے ساتھ ذکر کی جاتی ہیں، سائلہ ان آیات میں اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےکیے گئے وعدوں کو سامنے رکھے ،تاکہ سائلہ کے لیے شوہر کی خدمت کرنااور اس کی خوشنودی کو تلاش کرنا اور صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارنا آسان ہو جائے ،اور ہر گز کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو اس کے شوہر کی نارضی کا سبب بنے ۔
اللہ کا ارشاد ہے :
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ."
(سورہ بقرہ،آیت نمبر :153)
ترجمہ:
" اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے سہارا حاصل کرو بلاشبہ حق تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں ( اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ تو بدرجہٴ اولیٰ ) ۔"(بیان القرآن)
ارشادِ باری ہے:
"وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ."
(سورہ ابراہیم،آیت نمبر :7)
ترجمہ:
" اور وہ وقت یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے تم کو اطلاع فرما دی کہ اگر تم شکر کرو گے تم کو زیادہ نعمت دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے (یہ سمجھ رکھو کہ) میرا عذاب بڑا سخت ہے۔"(بیان القرآن)
مشکاۃ میں ہے:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت."
(کتاب النکاح ،باب عشرۃ النساء ،ج:2،ص؛971،ط:المکتب الاسلامی)
ترجمه:
"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے (یعنی اپنے ایام طہارت میں )اور رمضان المبارک میں روزے رکھے اور خاوند کی فرمانبرداری کرے (یعنی جن باتوں میں اسے فرمانبرداری کرنے کا حکم ہے)تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو ۔"(مظاہر حق)
وفیہ ایضاً:
"وعن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة."
(کتاب النکاح ،باب عشرۃ النساء ،ج:2،ص؛972،ط:المکتب الاسلامی)
ترجمہ:
"حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت اس حال میں فوت ہو کہ اس کا خاوند اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں جائے گی ۔"(مظاہر حق)
وفیہ ایضاً:
"وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور."
(کتاب النکاح ،باب عشرۃ النساء ،ج:2،ص؛972،ط:المکتب الاسلامی)
ترجمہ:
"حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنی حاجت کے لیے (یعنی جماع کے لیے )اپنی بیوی کو بلائے تو اسے حاضر ہو جانا چاہیے اگر چہ وہ تنور پر ہو ۔"(مظاہر حق)
قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے:
"كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ."
(سورہ الانبیاء،آیت نمبر :35)
ترجمہ:
" ہر جاندار موت کا مزہ چکھے گا اور ہم تم کو بری بھلی حالتوں سے اچھی طرح آزماتے ہیں اور پھر (اس زندگی کے ختم پر) تم سب ہمارے پاس چلے آؤ گے۔ "(بیان القرآن)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502101364
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن