میں نے گھریلو جھگڑے کی بنا پر اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہے ہیں" جا طلاق ہے، طلاق ہے"۔ یہ دو دن پہلے کا واقعہ ہے اور میری بیوی ابھی اپنی والدہ کے گھر میں ہے، سوال یہ ہے کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اگر طلاق واقع ہوئی تو کتنی ہوئیں؟ کیا اب میں بیوی کو ساتھ رکھ سکتا ہوں؟
صورتِ مسئولہ میں سوال میں مذکورالفاظ " جا طلاق ہے، طلاق ہے" کی رُو سے آپ کی بیوی پر مجموعی طور پر دو رجعی طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اگر آپ نے اس کے علاوہ اور کوئی طلاق نہیں دی تھی تو آپ کو بیوی کی عدت (تین مکمل ماہواریاں بشرطیکہ حمل نہ ہو) گزرنے سے پہلے رجوع کرنے کا اختیار حاصل ہے، اگر آپ نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تو نکاح باقی رہے گا اور ساتھ رہنے کے لیے نیا نکاح نہیں کرنا پڑے گا، لیکن اگر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی نکاح ٹوٹ جائے گا، پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نئے سرے سے باقاعدہ نکاح کرنا پڑے گا، بہرحال دونوں صورتوں میں آپ کے پاس آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہ گیا ہے، اگر اب مزید ایک طلاق اور دے دی تو مجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے آپ دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ قائم ہوجائے گی اور پھر رجوع کر کے یا دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہوگا۔
رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں آپ سے رجوع کرتا ہوں، یہ قولی رجوع کہلاتا ہے، یا شوہر بیوی کے ساتھ زوجین والے تعلقات قائم کرلے ، یہ فعلی رجوع کہلاتا ہے، بہتر یہ ہے کہ قولی رجوع کرکے اس پر گواہ مقرر کرلیے جائیں۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"و إذا طلق الرجل امرأته تطلييقةً رجعية أو رجعيتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية"·
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة، 1/ 470، ط:رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".
(كتاب الطلاق، باب الرجعة، 3/ 397 ط:سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا."
(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق،4/ 491،ط :رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101615
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن