بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو ہمبستری کے لیے راضی کرنے کا وظیفہ


سوال

بیوی کو ہمبستری کے لیے راضی کرنے کا وظیفہ۔

جواب

قرآنِ کریم کی مندرجہ ذیل آیتِ مبارکہ کا ہر فرض نماز کے بعد 11بار ورد کریں، اگر بیوی میں شوہر کی محبت اور وفاداری کی کمی ہے، تو ان شاءاللہ دور ہوجائے گی،  آیت مبارکہ ہے:

{وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ }[الأنفال: 63]

نیز یہ بھی  واضح رہے کہ جیسے شوہر کی جسمانی ضرورت و خواہش کی تکمیل بیوی پر لازم ہے، اور شرعی عذر ( جیسے ایام، بیماری، یا شوہر کا حدِ اعتدال سے زیادہ ہم بستر ہونا جس کی بیوی میں طاقت نہ ہو یا شوہر کی جانب سے تسکین شہوت کے لیےغیر فطری راستہ اختیار کرنے کا مطالبہ کرنا) کے  بغیر تسکینِ شہوت سے شوہر کو روکنا بیوی کے لیے شرعاً جائز نہیں، اوراحادیث میں ایسی بیوی کے  لیے  سخت وعیدات آئی ہیں، اور  شریعتِ مطہرہ نے اگرچہ شوہر کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے کا پورا پورا حق دیا ہے، لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ شریعت نے شوہر پر یہ بھی لازم کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق  اور اس کی صحت اور رغبت کا لحاظ بھی رکھے اور اس کی استطاعت اور طاقت سے زیادہ اس کو جماع کرنے پر مجبور نہ کرے۔

الدر المختار مع رد المحتار ميں ہے:

"ولو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها نهر بحثا."

وفي الرد تحته:

"(قوله نهر بحثا) حيث قال: ومقتضى النظر أنه لا يجوز له أن يزيد على قدر طاقتها، أما تعيين المقدار فلم أقف عليه لأئمتنا، نعم في كتب المالكية خلاف فقيل يقضي عليهما بأربع في الليل وأربع في النهار، وقيل بأربع فيهما. وعن أنس بن مالك عشر مرات فيهما. وفي دقائق ابن فرحون باثني عشر مرة.

وعندي أن الرأي فيه للقاضي فيقضي بما يغلب على ظنه أنها تطيقه اهـ. قال الحموي عقبه: وأقول ينبغي أن يسألها القاضي عما تطيق ويكون القول لهما بيمينها لأنه لا يعلم إلا منها وهذا طبق القواعد، وأما كونه منوطا بظن القاضي فهو إن لم يكن صحيحا فبعيد. هذا، وقد صرح ابن مجد أن في تأسيس النظائر وغيره أنه إذا لم يوجد نص في حكم من كتب أصحابنا يرجع إلى مذهب مالك وأقول: لم أر حكم ما لو تضررت من عظم آلته بغلظ أو طول وهي واقعة الفتوى اهـ. أقول: ما نقله عن ابن مجد غير مشهور، ولم أر من ذكره غيره، نعم ذكر في الدرر المنتقى في باب الرجعة عن القهستاني عن ديباجة المصفى أن بعض أصحابنا مال إلى أقواله ضرورة. هذا، وقد صرحوا عندنا بأن الزوجة إذا كانت صغيرة لا تطيق الوطء لا تسلم إلى الزوج حتى تطيقه. والصحيح أنه غير مقدر بالسن بل يفوض إلى القاضي بالنظر إليها من سمن أو هزال. وقدمنا عن التتارخانية أن البالغة إذا كانت لا تحتمل لا يؤمر بدفعها إلى الزوج أيضا، فقوله لا تحتمل يشمل ما لو كان لضعفها أو هزالها أو لكبر آلته. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة فيما يحرم على الزوج وطء زوجته مع بقاء النكاح قال: وفيما إذا كانت لا تحتمله لصغر أو مرض أو سمنة. اهـ. وربما يفهم من سمنه عظم آلته. وحرر الشرنبلالي في شرحه على الوهبانية أنه لو جامع زوجته فماتت أو صارت مفضاة، فإن كانت صغيرة أو مكرهة أو لا تطيق تلزمه الدية اتفاقا. فعلم من هذا كله أنه لا يحل له وطؤها بما يؤدي إلى إضرارها فيقتصر على ما تطيق منه عددا بنظر القاضي أو إخبار النساء، وإن لم يعلم بذلك فبقولها وكذا في غلظ الآلة، ويؤمر في طولها بإدخال قدر ما تطيقه منها أو بقدر آلة الرجل معتدل الخلقة، والله تعالى أعلم."

(کتاب النکاح، ج:3، ص:203، 204، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں