بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو غصہ کی حالت میں ایک، دو تین اور آپ میری ماں بہن ہو کہنے کا حکم


سوال

میری شادی 20جون 2020ء کو ہوئی ، ابتدا  ہی سے لڑائی جھگڑے چل رہے تھے، میرے گھر والے میری بیوی سے لڑتے رہتے تھے، تو وہ بہت تنگ ہوگئی ، اس نے کئی بار مجھ سے طلاق کا مطالبہ بھی کیا ، لیکن میں طلاق دینا نہیں چاہتا تھا، لیکن پھر جون 2021کو میں نے تنگ آکر غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو 'ایک، دو، تین'کہا ،یعنی طلاق کے الفاظ میں نے ادا نہیں کیے تھے، صرف ایک، دو، تین اپنی زبان میں کہاتھا، اور ہماری زبان میں یہ طلاق ہوتی ہے، اس وقت میری بیوی حمل سے تھی، اس کا مجھے بعد میں علم ہوا۔اب دریافت یہ کرنا ہےکہ اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

اور ہم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟کیوں کہ اب گھر والے ، بیوی اور میں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔جب سے میں نے مذکورہ الفاظ ادا کیے ہیں ،اس وقت سے ایک دوسرے سے علیحدہ رہ رہے ہیں ۔

وضاحت: ایک دو تین کے ساتھ یہ الفاظ ادا کیے تھے کہ’’ آپ میری ماں بہن ہو‘‘۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق کے وقوع کےلیے ضروری ہے کہ شوہر بیوی کو ایسے لفظ سے طلاق دی کہ جو صراحتاً یا کنایۃً طلاق پر دلالت کرتا ہوں،تاہم اگر شوہر نے بیوی کو غصہ کی حالت میں کوئی جملہ کہا اور اس میں طلاق کا لفظ یا طلاق کےمعنی پر دلالت کرنے والا لفظ موجود نہ ہو تو ایسے جملہ سے  طلاق واقع نہیں ہوتی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کاغصہ کی حالت میں اپنی بیوی سے صرف یہ کہنا کہ ’’ایک، دو، تین‘‘تو مذکورہ جملہ سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،سائل کا اپنی بیوی کے ساتھ نکاح برقرار ہے،نیز ایک دو تین کے بعد سائل کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ ’’آپ میری ماں بہن ہو‘‘اس جملے سےبھی  نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا ،البتہ بیوی کو  اس طرح کے جملے کہنا مکروہ ہے ، لہٰذا اس سے احتراز لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(قوله: و الطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متى قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد بدليل ما أجمعوا عليه من أنه لو قال لغير المدخول بها: أنت طالق ثلاثًا طلقت ثلاثًا، و لو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد، و من أنه لو قال: أنت طالق واحدة إن شاء الله لم يقع شيء و لو كان الوقوع بطالق لكان العدد فاصلًا فوقع.‘‘

(ردالمحتار علی الدر المختار ، باب طلاق غیر المدخول بھا ، ج:۳، ص:۲۸۷، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

’’(قوله: و ركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالةً على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، و أراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله: أنت طالق هكذا كما سيأتي.وبه ظهر أن من ‌تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه.‘‘

(ردالمحتار علی الدر المختار ، کتاب الطلاق، رکن الطلاق، ج:۳، ص:۲۳۰،ط:سعید)

وفيه أيضاً:

’’و يكره قوله ‌أنت ‌أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه.‘‘

(باب الظھار، ج:۳، ص: ۴۷۰،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں