بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو غصہ میں کہنا کہ 'اگر تم کسی دوسرے کو چاہتی ہو تواپنی مرضی کرو' سے طلاق کا حکم


سوال

میں نے اپنے بیوی کو ہمبستری کے لیے پکارا ، وہ اس وقت فارغ نہیں تھی ، تو وہ غصہ ہو گئی، مجھے بھی غصہ آیا اور غصے میں  میں نے کہہ دیا کہ اگر تم اپنا وجود خوشی سے مجھے نہیں دیتی ہو، اگر چہ میری بیوی کو میرے سوا کوئی پسند نہیں،  لیکن میں نے غصے میں کہہ دیا کہ اگر تم کسی دوسرے کو چاہتی ہو(تو میرے منہ سے اس وقت نکل گیا کہ) اپنی مرضی کرو۔ (دل میں میرا ان الفاظ کے کہنے سے وقتی طور پر طلاق مراد نہیں تھی،  لیکن اتنا شاید خیال تھا کہ اگر تم میرے ساتھ خوش نہیں ہو تو تم کو طلاق دوں گا یعنی طلاق دینا میں اس وقت نہیں چاہتا تھا مگر اتنا خیال تھا غصے کی وجہ سے کہ اگر آپ میرے ساتھ خوش نہیں،  تو طلاق دوں گا) لیکن منہ سے صرف اتنا غصے میں نکل گیا کہ اپنی مرضی کرو۔

اہم بات کرنا چاہتا ہوں کہ میں انتہائی درجے کا وہمی انسان ہو ، اس لیے اس دن جھگڑے سے پہلے اتفاقاً میں نے اکیلے میں الله کو 4 مرتبہ گواہ بنا کر کہہ دیا تھا کہ اے اللہ اگر کبھی میرے منہ سے کنایہ الفاظ نکل جائیں  اور پھر میں وہم کرنے لگوں کہ طلاق ہوئی ہے کہ نہیں،  تو تم اس وقت تک میری طلاق شمار نہیں کرنا جب تک کہ کنایہ الفاظ کہنے سے کم از کم 5 سیکنڈ پہلے میرا طلاق کا پکا ارادہ نہ ہو اور جب تک کہ کنایہ الفاظ کہنے کے بعد میں کم از کم 3 مرتبہ آپ کو گواہ نہ بنا لوں کہ میں نے واقعی طور پر دل سے طلاق دی ہے، کیونکہ میں انتہائی درجہ کا وہمی انسان ہو،'لا اله الااللّٰہ محمد الرسول اللّٰہ'  کہ میں سچ بول رہا ہوں کہ میں انتہائی درجے کا وہمی انسان ہوں، اور اللہ سے ان سب کہنے کے بعد اتفاقاً ہمارا اس دن جھگڑا ہو گیا اور میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ اپنی مرضی کرو اور اس کے جواب میں میرے بیوی نے کہا کہ نہیں (مطلب یہ کہ وہ کہنا چاہتی تھی کہ میں تمہارے سوا کسی اور کو نہیں چاہتی یا یہ مراد ہے کہ وہ کہہ رہی تھی کی میں اپنی مرضی نہیں کرنا چاہتی اور اس نے اس وقت یہ بھی کہہ دیا کہ تمہارا خوش کرنا میرا سب سے بڑھ کر کام ہے۔ مہربانی کر کے جتنا جلدی ممکن ہو وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کاغصہ میں  اپنی بیوی کو  مذکورہ الفاظ' اگر تم کسی دوسرے کو چاہتی ہوتو  اپنی مرضی کرو' کہنےسے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ركن الطلاق فركن الطلاق هو اللفظ الذي جعل دلالة على معنى الطلاق لغة وهو التخلية والإرسال ورفع القيد في الصريح وقطع الوصلة ونحوه في الكناية أو شرعا، وهو إزالة حل المحلية في النوعين أو ما يقوم مقام اللفظ."

(كتاب الطلاق، فصل في بيان ركن الطلاق، ج: 3، ص: 98، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص.

وفي الرد: (قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية."

(ر‌‌د المحتار، كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج: 3، ص: 230، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں