بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو گالی دینے اور تہمت لگانے کا حکم


سوال

 درج ذیل مسائل میں راہنمائی فرمائیں:

1۔ بیوی سے ناچاقی میں شوہر گالم گلوچ کرتا ہے اور بیوی کے بھائی کو کہتا ہے کہ تمہاری ماں ( یعنی اس کی ساس) میرے ساتھ سوتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ خود اپنی بیوی کے متعلق بھی کہتا ہے کہ تم لوگ اپنی بہن کو پیسے لے کر غیروں کے ساتھ لٹاتے ہو۔ براہ مہربانی راہنمائی فرمائیں کہ اس کلام کے بعد میاں بیوی کے رشتے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ آیا یہ کلام موجب حد ہے یا نہیں؟

2۔  ایک عورت کہتی ہے کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی۔ بعد میں جب بات ہوئی تو وہ مکر گیا کہ میں نے کچھ نہیں کہا۔ بیوی کے اصرار پر بولا کہ شاید میں نے نیند میں کچھ بول دیا ہوگا۔ ایسا ایک سے زائد بار ہوا۔ براہ مہربانی جواب مرحمت فرمائیں۔ واضح رہے کہ دونوں مسائل مختلف خواتین کے ہیں۔

جواب

1۔  واضح رہے کہ   گالی دینا بہت بُری عادت اور گناہ کی بات ہے، جسے گالی دی جائے اس کی عزتِ نفس بھی مجروح ہوتی ہے، اس کی ایذا کا سبب بھی ہوتاہے، جو کہ حرام ہے۔ اور لڑائی جھگڑے کے موقع پر گالی دینے کو حدیث میں منافق کی علامات میں سے  قرار دیاگیاہے۔ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مومن کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔لہذا شوہر کا گالم گلوچ کرنا اچھا نہیں ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اس پر توبہ واستغفار کرے اور بیوی سے معافی مانگے۔اور بیوی کو چاہیے کہ صبر و تحمل اور عفو درگزر سے کام لے۔

اورکسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا سخت حرام اور گناہ کبیرہ ہے، اسلامی قوانین میں ایسے شخص کے لیے جو کسی پاکدامن عورت پر تہمت  لگائے اور پھر اسے چارگواہوں کے ذریعہ ثابت نہ کرسکے تو اس کے لیے اسی ( 80) کوڑوں کی سزاہے ، جس کے نفاذکا اختیار قاضی /عدالت کو ہے عام آدمی ازخود حدکا نفاذ نہیں کرسکتا  ۔لہذا صورتِ مسئولہ میں شوہرتہمت لگانے کی وجہ سے (جب کہ اس کے پاس گواہ بھی نہ ہو)  سخت حرام اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہواہے، لہذا اس پر توبہ اور بیوی سے معافی مانگنا لازم ہے۔جو شخص کسی مسلمان کی آبروکا خیال نہیں رکھتا حدیث شریف میں آتاہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالی رسواکردیتے ہیں ، آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہوگا، نیز اس طرح کی تہمت لگانے کو آپ ﷺ نے ہلاک کرنے والے گناہوں میں  شمار کیاہے ۔

باقی شوہر کا یہ کہناکہ ' تمہاری ماں ( یعنی اس کی ساس) میرے ساتھ سوتی رہی ہے' اگر واقعتاً  اس کی یہ بات درست ہو اور اس کے نتیجہ میں  شوہرنے شہوت کے ساتھ اپنی ساس کو چھوا ہو یا جماع کیاہو تواس کا یہ فعل کرنا  گناہ کبیرہ اور حرام تھا اوراس پر  آخرت میں سخت مواخذہ ہوگا ، او راس طرح کر نے کی وجہ سے  حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی ہے، اور اس پر  بیوی (ساس کی بیٹی)  ہمیشہ کےلئے حرام ہوگئی ہے۔

2۔ :واضح رہے کہ اگرکسی عورت کو اس کا شوہر طلاق دے دے اور پھر انکارکرے تواس صورت میں عورت اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے اگر گواہ پیش کردےتو عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گااور شوہر کاانکار معتبر نہ ہوگا۔ اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو  شوہرسے حلف لیاجائے گا،اگرشوہرحلف سے انکار کردے تو بھی فیصلہ عورت کے حق میں ہوگا، اور اگر شوہر حلف اٹھاتاہے توظاہری فیصلہ اسی کے حق میں ہوگا،البتہ اگر نوبت تین طلاق تک پہنچ گئی تھی اورعورت کوتین طلاق کایقین ہوتو اسے چاہیے کہ شوہرکواپنے اوپرقدرت نہ دے اور چھٹکارے کی کوئی صور ت بنائے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة : عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:  «‌اجتنبوا ‌السبع ‌الموبقات، قالوا: يا رسول الله، وما هن؟ قال: الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات.»."

(‌‌‌‌كتاب الوصايا، ‌‌باب قول الله تعالى {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا}، ج: 2، ص: 1318، رقم: 2766، ط: بشري)

وفيه أيضاً:

"حدثنا ‌محمد بن عرعرة قال: حدثنا ‌شعبة، عن ‌زبيد قال: «سألت أبا وائل عن المرجئة فقال: حدثني عبد الله: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سباب المسلم فسوق وقتاله كفر."

(‌‌كتاب الإيمان، ‌‌باب خوف المؤمن من أن يحبط عمله وهو لا يشعر، ج: 1، ص: 152، رقم: 48، ط: بشري)

وفيه أيضاً:

"عن ‌عبد الله بن عمرو، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كانت فيه خصلة منهن، كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا اؤتمن خان، وإذا حدث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر."

(‌‌كتاب الإيمان، ‌‌باب علامة المنافق، ج: 1، ص: 144، رقم: 34، ط: بشري)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله - عليه الصلاة والسلام - «البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه."

(كتاب الدعوي، فصل في حجة المدعي والمدعى عليه، ج: 5، ص: 336، ط: دار احياء التراث العربي)

 مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"ولا يسع المرأة إذا سمعت ذلك أن تقيم معه لأنها مأمورة باتباع الظاهر ‌كالقاضي."

(کتاب الطلاق، باب ماتقع به الفرقة مما يشبه الطلاق، ج: 6، ص: 93، ط: دار الکتب العلمية)

عنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"القذف في اللغة الرمي، وفي اصطلاح الفقهاء نسبة من أحصن إلى الزنا صريحا أو دلالة (إذا قذف الرجل رجلا محصنا أو امرأة محصنة بصريح الزنا) ۔۔۔۔۔۔(وطالب المقذوف بالحد) وعجز القاذف عن إثبات ما قذفه به (حده الحاكم ثمانين سوطا إن كان حرا لقوله تعالى {والذين يرمون المحصنات} [النور: 4] إلى أن قال {فاجلدوهم ثمانين جلدة} [النور: 4] الآية، والمراد) بقوله {والذين يرمون} [النور: 6] (الرمي بالزنا بالإجماع) وإليه الإشارة في النص لأنه شرط أربعة من الشهداء وهو مختص بالزنا."

(كتاب الحدود، باب حد القذف، ج: 3، ص: 175، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المحرمات بالصهرية وهي أربع فرق: (الأولى) أمهات الزوجات وجداتهن من قبل الأب والأم وإن علون ...وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة ...وإذا قبلها ثم قال: لم يكن عن شهوة أو لمسها أو نظر إلى فرجها ثم قال: لم يكن بشهوة فقد ذكر الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - في التقبيل يفتى بثبوت الحرمة ما لم يتبين أنه قبل بغير شهوة وفي المس والنظر إلى الفرج لا يفتى بالحرمة إلا إذا تبين أنه فعل بشهوة؛ لأن الأصل في التقبيل الشهوة بخلاف المس والنظر، كذا في المحيط. ... ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أم لم يشتبه، كذا في الذخيرة. وإذا فجر بامرأة ثم تاب يكون محرما لابنتها؛ لأنه حرم عليه نكاح ابنتها على التأبيد، وهذا دليل على أن المحرمية تثبت بالوطء الحرام وبما تثبت به حرمة المصاهرة، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ج: 1، ص: 277،276،274، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101896

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں