بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو دوسری جگہ نکاح کرنے کے موقع سے محروم کرنے کرنے کی غرض سے طلاق نہ دینا، حقوق زوجیت ادا نہ کرنے والے شوہر سے خلاصی کا شرعی طریقہ


سوال

زوجین میں اگر نکاح کے ایک دو سال بعد جھگڑا ہو کر دونوں الگ ہو گئےاور دو سال ہو گئے میاں بیوی کے درمیان کوئی بات چیت بھی نہیں ہوئی ،ادھر شوہر نے دوسری عورت سے شادی بھی کر لی اور جانبین سے کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے اور شوہر نے بیوی کو واپس نہ لینے کا ارا دہ کیا اور بیوی کا بھی نہ جانے کا ارادہ ہے،ساتھ ساتھ شوہر اور شوہر کے گھر والوں کا ارادہ یہ ہے کہ آٹھ دس سال تک طلاق نہ دے کر بیوی کو دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا موقع نہ دیں تو کیا اس صورت میں زوجین کا نکاح ابھی تک باقی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں طلاق، خلع یا فسخِ نکاح وغیرہ کے بغیر محض میاں بیوی کے درمیان بات چیت نہ ہونے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ، نکاح برقرار ہے، خواہ کتنے ہی عرصہ گزر گیا ہو اور  جب تک نکاح برقرار ہے عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

میاں بیوی کے درمیان ناچاقیاں پیدا ہونے کی صورت میں اسلامی تعلیمات کے مطابق سب سے پہلے میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ باہمی رضامندی اور صلح صفائی کے ساتھ آپس کے اختلافات کو ختم کر کے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزاریں، اگر دونوں کے درمیان بات نہ بنے تو دونوں کے خاندان کے سمجھ دار اور معزز افراد کی ذمہ داری  ہے کہ دونوں کے درمیان صلح صفائی کرائیں اور ایک دوسرے کی شکایات کو سن کر اس کے ازالہ کی کوشش کریں اور میاں بیوی میں سے جو بھی غلطی پہ ہو اس پر اسے تنبیہ کر کے اسے اپنے اس طرزِ عمل اور سلوک سے باز رہنے کا کہیں اور حتی الامکان طلاق وغیرہ سے اجتناب کریں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا رشاد  ہے:

" وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا." [سورة النساء : 35]

  ترجمہ : ’’ اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو (ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو۔ اگر وہ اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بے شک اللہ تعالٰی کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے۔‘‘(از بیان القرآن)

لیکن شوہر آئندہ بیوی کے ساتھ  رہنے  اور اس کے حقوق ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ، اس کے باوجود بیوی کو دوسری جگہ نکاح کرنے کے موقع سے محروم کرنے کی غرض سے طلاق نہ دینا اور خلاصی کی راہ نہ دینا بہت سخت گناہ ہے،اس پر  قرآن کریم میں سخت ممانعت اور مذمّت کی گئی ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا." [سورة النساء: 19]

ترجمہ : ”اے ایمان والوتم کو یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کے (مال یا جان کے) جبرا مالک ہوجاؤ اور ان عورتوں کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ جو کچھ تم لوگوں نے ان کو دیا ہے اس میں کا کوئی حصہ وصول کرلو مگر یہ کہ وہ عورتیں کوئی صریح ناشائستہ حرکت کریں۔ اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔“(از بیان القرآن)

اس آیت کے تحت حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ”تفسیر معارف القرآن “ میں لکھتے ہیں:

”تیسرا ظلم کہیں کہیں یہ بھی ہوتا تھا کہ بعض اوقات بیوی کا کوئی قصور نہ ہونے کے باوجود محض طبعی طور پر وہ شوہر کو پسند نہ ہوتی تو شوہر اس کے حقوق زوجیت ادا نہ کرتا، مگر طلاق دے کر اس کی گلو خلاصی بھی اس لئے نہیں کرتا کہ یہ تنگ آ کر زیور اور زر مہر جو وہ اسے دے چکا ہے واپس کر دے، یا اگر ابھی نہیں دیا تو معاف کر دے تب اسے آزادی ملے گی .... اور بعض اوقات شوہر طلاق بھی دے دیتا، لیکن پھر بھی اپنی اس مطلقہ کو کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرنے دیتا تاکہ وہ مجبور ہو کر اس کا دیا ہوا مہر واپس کر دے یا واجب الادا مہر کو معاف کر دے۔“

(سورۃ النساء: ج:2، ص: 351، ط: مکتبہ معارف القرآن  کراچی)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر دوبارہ بیوی کے ساتھ رہ کر اس کے حقوقِ زوجیّت ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تو اس پر لازم ہے کہ اسے   طلاق دے کر خلاصی کا راستہ دے دے، تاکہ وہ عزّت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کر سکے۔

 اگر شوہر کسی بھی طرح طلاق دینے پر  راضی  نہ ہو تو عورت کے لیے گنجائش ہے کہ شوہر کو کچھ مال وغیر ہ دے کر باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرے،اگروہ خلع پربھی راضی نہہو تو اس صورت میں عورت کسی مسلمان جج کی عدالت سے شوہر کے   نان نفقہ  نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ  دائر کرسکتی ہے،جس کاطریقہ یہ ہے کہ  عورت اولاً عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے ،اس کے بعد شرعی گواہوں کے ذریعے شوہر کے نان نفقہ  نہ دینے   کو ثابت کرے،اگر عورت عدالت میں گواہوں کے ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائےاورعدالت کے بلانے اور سمن جاری  کرنے کے باوجود شوہر حاضر نہ ہوتو عدالت اس نکاح کو فسخ کردے،جس کے بعد عدت گزار کر عورت  کادوسری جگہ نکاح کرنا  جائز  ہوگا ۔

ردالمحتار میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا. قال: فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية و غيرها اهـ ."

(کتاب النکاح ،مطلب في النكاح الفاسد،3/132،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج."

(کتاب النکاح،القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير: ص:280، ج: 1ط:دارالفکر)

فقہ السنۃ میں ہے:

"والخلع يكون بتراضي الزوج والزوجة."

(کتاب الطلاق:ج:2، ص:299 ط: دارالکتاب العربی)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

( کتاب الطلاق،الفصل الأول فی شرائط الخلع: ج:1، ص:488، ط:رشیدیه)

حیلۂ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق  ففی مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام، فإن لم یثبت عسرہ أنفق أو طلق وإلا طلق علیه، قال محشیه: قوله:وإلا طلق علیه أی طلق علیه الحاکم من غیر تلوم .... إلی أن قال: وإن تطوع بالنفقة قریب أو أجنبی، فقال ابن القاسم: لها أن تفارق؛ لأن الفراق قد وجب لها، وقال ابن عبدالرحمن : لا مقال لها؛ لأن سبب الفراق هو عدم النفقة. قد انتهی وهو الذی تقضیه المدونة کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتہی."

(فصل فی حکم زوجة المتعنت:ص:73،ط:دارالإشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101995

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں