بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو ’’آپ مجھ پر تین شرطوں اور تین پتھروں کے ساتھ ماں بہن ہو‘‘ کہنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ آپ مجھ پر تین شرطوں اور تین پتھروں کے ساتھ ماں بہن ہو تو ان الفاظ سے کتنی طلاقیں واقع ہوگی؟

جواب

مذکورہ شخص کا اپنی بیوی کو ماں اور بہن کہنا شریعت کی رو سے درست نہیں ہے، فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اپنی بیوی کو ماں، بہن یا بیٹی کہنا مکروہ ہے۔ البتہ سوال میں مذکورہ جملہ ’’ آپ مجھ پر تین شرطوں اور تین پتھروں کے ساتھ ماں بہن ہو‘‘  میں چوں کہ ماں اور بہن سے تشبیہ دینا نہیں پایا جارہا، بلکہ بیوی کو ہی ماں اور بہن کہا ہے، اس لیے ان الفاظ سے نہ ظہار ہوگا اور نہ ہی طلاق، لہٰذا زوجین کے نکاح میں کوئی اثر نہیں پڑے گا، دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے  ، بشرطیکہ نکاح کے ٹوٹنے کا کوئی دوسرا سبب نہ پایا گیاہو۔

ہاں اگر شوہر تشبیہ دیتے ہوئے یوں کہتا کہ ’’تم میری ماں کی طرح ہو‘‘، یا ماں کے جسم کے کسی ایسے حصے سے تشبیہ دے کر کہتا جس حصے کو دیکھنا اس کے لیے جائز نہ ہو تو اس سے ظہار ہوجاتا اور طلاق کی نیت کی صورت میں طلاق ہوجاتی۔ بہرحال مذکورہ جملے کہنا مکروہ ہے، آئندہ ایسے جملے کہنے سے اجتناب کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 470):

'' ( وإن نوى بأنت علي مثل أمي ) أو كأمي وكذا لو حذف علي، خانية ( براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته ) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية ( وإلا ) ينو شيئاً أو حذف الكاف، ويكره قوله: أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه۔

(قوله:حذف الكاف ) بأن قال أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بد من التصريح بالأداة، (قوله: لغا )؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لا يكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه ''۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201400

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں