بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو الزائمر کی بیماری کی وجہ سے شوہر کا بیوی کے زیورات بیٹی کو ہدیہ کرنے کا حکم


سوال

میرے والدین کچھ عرصہ سے .... میں مقیم ہیں ، آخری مرتبہ تقریباً دس سال پہلے .... جانے سے قبل امّی نےامانۃً اپنے زیورات میرے پاس رکھوائے تھے ،  اور کچھ میری بیٹی کو شادی کے موقع پر تحفۃً دینے کے لیے مجھے دیے تھے ، تقریباً سات سال قبل میری بیٹی کی شادی کے موقع پر والد صاحب آئے ، تو میں نے وہ زیور والد صاحب کو دکھائے (جو امّی نے میری بیٹی کو گفٹ کرنے  کے لیے میرے پاس رکھوائے تھے) ، تو  والد صاحب نے کہا کہ جب امّی نے دے دئے تھے تو ٹھیک ہے ، آپ دے دو ، پھر جو امّی نے میرے پاس امانۃً زیورات(چار چوڑیاں) رکھوائے تھے ، وہ والد کو دکھائے تو والدنے کہا کہ یہ بیٹی کو دے دو ، میں نے کہا کہ بیٹی کے پاس تو ہے ، آپ ایک ایک سب بہو کو دے دیں ، تو والد نے منع کردیا ، میں نے کہا کہ پوتیوں کو دیں تو والد نے کہا کہ وہ ابھی  چھوٹی ہیں ، پھر تم رکھ لو ، یعنی انھوں نے مجھے دے دیا تھا ، ایک سال قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا، والد صاحب نے مجھے جو کچھ زیور دیے تھے ، گزشتہ سات سال سے میں اس کی زکاۃ ادا کررہی ہوں ، آیا میں اس کی مالکہ ہوں یا یہ والد صاحب کا ترکہ شمار ہوگا؟

وضاحت:

1. سائلہ کا کہنا ہے کہ "والد نے ان کو باقاعدہ تمام ورثاء کی موجودگی میں مذکورہ زیور دیکر مالک بنایا تھا" ، نیز تمام ورثاء اس پر راضی بھی تھے اور ہیں ۔

2. مذکورہ زیورات والد نے والدہ کو دلائے تھے۔

3. والدہ الزائمر کی بیمار تھیں (ہر چیز بھول جاتی تھیں ) اس وجہ سے والد نے ان(والدہ) کے  میرے پاس رکھوائے ہوئے زیورات مجھے دے دیے تھے۔

4. ورثاء میں چھ (6) بھائی ، ایک بہن ہیں ، والدہ کا انتقال والد صاحب کی زندگی ہی میں ہوچکا ہے۔

جواب

واضح رہے شریعت میں میاں بیوی دونوں کی ملکیتوں کا جداگانہ لحاظ رکھا گیا ہے، لہٰذا اگر شوہر بیوی کو کوئی رقم وغیرہ مالک بناکر دے دے تو وہ بیوی کی ملکیت بن جاتی ہے، اسی طرح بیوی شوہر کو کوئی چیز مالک بناکر دے تو وہ بھی مالک بن جاتاہے،  دونوں کی ذاتی ملکیت میں جو چیز موجود ہو، دوسرے کو اس میں مالکانہ تصرف کا حق نہیں ہوتا ، جو اشیاء بیوی کی ملکیت میں ہیں، وہ شوہر کی ملکیت شمار نہیں ہوں گی، لہذا  از رُوئے شرع شوہر کے  لیے اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر اس کی ملکیتی اشیاء میں  تصرف کرنا جائز نہیں ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زیورات چوں کہ والدہ مرحومہ نے بیٹی کے پاس امانت کے طور پر رکھوائے تھے ، تو والدہ ہی ان زیورات کی مالک تھی والد نہیں تھے،اس لیے والد مرحوم  کا والدہ کا زیور بیٹی کو دینا  درست نہیں تھا، اوراس سے مذکورہ زیورات میں  سائلہ کی ملکیت  ثابت نہیں ہوگی،  مذکورہ زیورات والدہ کا ترکہ شمار کرکے تمام وُرثاء میں شرعی طریقہ سے تقسیم ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے :  

"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) .....(‌وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

(كتاب الهبة، ج:5، ص:688، ط:سعید)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ‌ألا ‌لا ‌يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

مجلة الأحكام العدليہ میں ہے:

"لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانیة،المادة:97، ج:1، ص:51، ط:نور محمد كارخانه تجارتِ كتب آرام باغ كراتشي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410101384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں