بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو علیحدہ گھر میں رکھنے کا حکم


سوال

1۔میری بیٹی کی جس گھر میں شادی ہوئی ہے اس کی ساس اسے بہت پریشان کرتی ہے اور معمولی باتوں پر ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہے ، میری بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ گھر بسانے پر راضی ہے لیکن شرط یہ ہےکہ لڑکا اس کو علیحدہ گھر لیکر دے ، تو کیا  لڑکی کا یہ مطالبہ شرعا درست ہے؟ 

2۔اگر کسی صورت میں میری بیٹی کو الگ گھر نہیں ملتا  تو ہم اپنی بیٹی  کو اس گھر میں بھیجنا نہیں چاہتے لہذا ایسی صورت میں میری بیٹی کےلئے جدائیگی کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟

3۔میری بیٹی کا ایک چند ماہ کا بیٹا ہے  ، علیحدگی کی صورت میں وہ بچہ کس کے پاس رہے گاَ؟

جواب

واضح رہے کہ اسلام نے ہرمسلمان کو تمام تعلق داروں سے حسن معاشرت کا حکم دیاہے، جیسے بیوی پرشوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح شوہر کے ذمہ بھی بیوی کے حقوق لازم ہیں، اورشوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی سمجھتے ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں جانبین کو  حقوق کے مطالبے کے بجائے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرناچاہیے، بہو  کو چاہیے کہ  اپنی ساس کو والدہ کے درجہ میں سمجھ کران کی نصیحت کو توجہ سے سنے اور حتی الامکان اس پر عمل کرے،  یہ میاں بیوی دونوں کی سعادت اور اخروی نیک بختی ہے، اور اگر ان سے کوئی سخت یا ناروا بات بھی ہوجائے تو  اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں۔

1۔ شوہر کے ذمہ ہے کہ بیوی کی رہائش کے لیے ایسا انتظام کرے  جہاں اس کے ذاتی امور میں کوئی مداخلت نہ کرے یاتو الگ گھر کا انتظام کرے  اور اگر الگ رہائش کی صورت نہیں بنتی تو اپنی والدہ کے گھر میں ہی ایک الگ کمرہ دے  جس میں باتھ روم غسل خانہ بھی  ہو اورباورچی خانہ   بھی  ، اگر شوہر  یہ انتظام کردیتا ہے تو اس کے بعدبیوی   کو مستقل الگ رہائش   کے مطالبہ کا حق نہیں ۔

2۔شوہر اگر الگ رہائش نہیں دیتا اور نہ ہی الگ کمرہ کا انتظام کرتا ہے تو ایسی صورت میں  دونوں خاندان کےبڑے بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کریں ،باوجود کوشش کے نباہ کی کوئی صورت نہ بنے تو شوہر کو طلاق یا خلع پر آمادہ کریں۔

3۔  جدائیگی کی صورت  میں سات سال کی عمر  تک بچہ اپنی والدہ کے پاس رہے گا اور اس دوران بچہ   کا خرچہ والد کے  ذمہ ہوگا اوروالد کو بچہ سے ملاقات کا حق  ہوگا  اورسات سال  کی عمر کے بعد والد کو یہ حق ہوگا کہ وہ بچے کو اپنی پرورش اور تربیت  میں لےلے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح  الكنز."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكني، ١/ ٥٥٦، ط: دار الفكر)

حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"چوں کہ شرعاً عورت کوحق حاصل ہے کہ شوہرکے ماں باپ سے علیحدہ رہے،اوراگروہ اپنے حق جائزکامطالبہ کرے گی توشوہرپراس کے حق کاادا واجب ہوگا۔اورواجب کاترک معصیت ہے،اورمعصیت میں کسی کی اطاعت نہیں،لہذا اس انتظام کونہ بدلیں۔"

(امدادالفتاویٰ،2/525)

مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

"مردکے ذمہ واجب ہے کہ عورت کوایک مکان علیحدہ رہنے کے لیے دےکہ اس مکان میں شوہرکے ماں باپ بہن بھائی وغیرہ نہ رہتے ہوں،بلکہ وہ پورابیوی کے قبضہ وتصرف میں ہو،اورمکان سے مرادایک کمرہ یاکوٹھاہے جس کوعربی میں’’بیت‘‘کہتے ہیں ،لہذااگرصحن وغیر ہ مشترک ہوجس کوشوہرکے دوسرے عزیزبھی استعمال کرتے ہوں اوربیوی بھی تواس کومطالبے کاحق نہیں کہ میراصحن بھی مستقل ہوناچاہیے،اس میں بھی کسی کی شرکت نہ ہو۔یہ اس وقت ہے جب کہ شوہراوربیوی دونوں زیادہ مالدارنہ ہوں،بلکہ متوسط درجے کے ہوں،اگرمالدارہوں اورشوہرمیں اس قدراستطاعت ہوکہ کوئی مستقل گھرعلیحدہ بیوی کودے سکتاہے ،خواہ خریدکر،خواہ کرایہ پر،خواہ عاریت پرجس کاصحن وغیرہ بھی علیحدہ ہو جس کوعربی میں ’’دار‘‘کہتے ہیں،توعورت کواس مطالبے کاحق حاصل ہے۔"

(فتاویٰ محمودیہ،ج:13،ص:448،447،ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)

بدائع الصنائع ميں ہے:

 "وأما بيان من له الحضانة فالحضانة تكون للنساء في وقت وتكون للرجال في وقت والأصل فيها النساء؛ لأنهن أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر۔"

(باب فی بیان من له الحضانة، ج:4،ص:41، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي"۔

(فصل السادس عشر فی الحضانة، ج:1، ص:543، دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں