میرے شوہر نے گھر سے نکلتے وقت کہاتھا کہ" سارا سامان پیک کر دو، اپنے سارے کپڑے رکھو، اور میں نے آپ کو آزاد کر دیا، میری طرف سے فارغ ہو اور طلاق کے پیپر بھی آپ کے گھر آجائیں گے اور آپ کا حق مہر بھی آجائے گا اور میں آپ کو لینے نہیں آؤں گا"۔ براہِ مہربانی راہ نمائی فرمادیں کہ مجھے کتنی اور کون سی طلاق ہوئی ہے؟
شوہر نے بعد میں طلاق کے کاغذات نہیں بھجوائے۔
صورتِ مسئولہ میں آپ کے شوہر کے اس جملے " سارا سامان پیک کر دو، اپنے سارے کپڑے رکھو، اور میں نے آپ کو آزاد کر دیا، میری طرف سے فارغ ہو اور طلاق کے پیپر بھی آپ کے گھر آجائیں گے اور آپ کا حق مہر بھی آجائے گا اور میں آپ کو لینے نہیں آؤں گا" میں ایک لفظ "آزاد"صریح بائن کا لفظ ہے،جس سے طلاق کی نیت کے بغیر بھی ایک بائن طلاق واقع ہوجاتی ہے، جب کہ دوسرا لفظ "فارغ" کنائی طلاق کا لفظ ہے، جس سے طلاق واقع ہونے کے لیے شوہر کی طرف سے طلاق کی نیت ہونا یا ان الفاظ کی ادائیگی سے پہلے مذاکرہ طلاق ہونا شرط ہے، ، البتہ چوں کہ لفظِ"آزاد" اور لفظِ "فارغ" دونوں سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے اور ایک بائن طلاق کے بعد دوسری بائن طلاق واقع نہیں ہوتی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا بیان اگر واقعۃً صحیح اور درست ہے تو آپ کے شوہر کے لفظِ "آزاد" سے آپ پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی اور لفظِ "فارغ" لغو ہوگیا تھا، اس لیے لفظِ فارغ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،بہرحال ایک بائن طلاق واقع ہونے کی وجہ سے آپ کا نکاح ٹوٹ گیا ہے، عدت (پوری تین ماہواریاں بشرطیکہ حمل نہ ہو، ورنہ بچے کی پیدائش تک) گزرنے کے بعد شرعاً آپ دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہیں، البتہ اگر آپ دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں از سرِ نو ایجاب و قبول کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہ سکتے ہیں، اور دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس آئندہ کے لئے صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔ لیکن اگر آپ دوبارہ نکاح پر راضی نہ ہوں تو شوہر آپ کو تجدیدِ نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا ہے،اور آپ عدت گزرنے کے بعد اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"أنّ الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفاً إلاّ فيه من أيّ لغةٍ كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنّه طلاق بائن للعرف بلا نيّة مع أنّ المنصوص عليه عند المتقدّمين توقفه على النيّة".
(کتاب الطلاق ، باب صریح الطلاق،ج:3،ص:252،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو قال: أعتقتك طلّقت بالنية كذا في معراج الدراية. وكوني حرّة أو اعتقي مثلأنت حرّةكذا في البحر الرائق".
(کتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق،ج:1،ص:376،ط:دار الفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية وقد نظمت ذلك بقولي:
نحو اخرجي قومي اذهبي ردا يصح ... خلية برية سبا صلح
واستبرئي اعتدي جوابا قد حتم ... فالأول القصد له دوما لزم
والثاني في الغضب والرضا انضبط ... لا الذكر والثالث في الرضا فقط
ورسمتها في شباك لزيادة الإيضاح بهذه الصورة:
رد وجواب اخرجي اذهبي | سب وجواب خلية برية | جواب فقط اعتدي استبرئي | |
رضا | تلزم النية | تلزم النية | تلزم النية |
غضب | تلزم النية | تلزم النية | يقع بلا نية |
مذاكرة | تلزم النية | يقع بلا نية | يقع بلا نية |
(كتاب الطلاق، باب الكنايات، 3/ 298...302، ط:سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(لا)یلحق البائن(البائن)."
(کتاب الطلاق، باب الکنایات،ج:3،ص:308،ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضاً حتى لايحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولايجري اللعان بينهما ولايجري التوارث ولايحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."
(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، 3/ 187 ، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها."
(کتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة،،ج:1،ص:472،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603103144
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن